فیکٹ چیک: لبنان کی نہیں ہے یہ وائرل تصویر، 2012 کی شام کی فوٹو فرضی دعوی کے ساتھ وائرل

وشواس نیوز نے اپنی پڑتال میں پایا کہ اس وائرل تصویر کے ساتھ جو دعوی شیئر کیا جا رہا ہے وہ غلط ہے۔ یہ تصویر 2012کی شام کی ہے، جب شامی فوجیوں کے حملہ میں اس بچے کا انتقال ہو گیا تھا۔

نئی دہلی (وشواس نیوز)۔ سوشل میڈیا پر ایک تصویر وائرل ہو رہی ہے جس میں ایک شخص کو اپنی گود میں بچے کو لئے اور روتےہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ تصویر کو لبنان کے باب التبانہ شہر کی بتاتے ہوئے دعوی کر رہے ہیں کہ یہ آکسیجن کے بحران کے دوران کی یہ تصویر ہے اور یہ اولد اپنے بچے کو لے کے لئے آکسیجن کو لے کر بھٹک رہاہے۔ وشواس نیوز نے اپنی پڑتال میں پایا کہ اس وائرل تصویر کے ساتھ جو دعوی شیئر کیا جا رہا ہے وہ غلط ہے۔ یہ تصویر 2012کی شام کی ہے، جب شامی فوجیوں کے حملہ میں اس بچے کا انتقال ہو گیا تھا۔

کیا ہے وائرل پوسٹ میں؟

فیس بک صارف أبو جراح نے وائرل پوسٹ کو شیئر کرتے ہوئے لکھا، ’میرا پیارا درد میں ہے۔ باب التبانہ ۔ یا اللہ ہم پر رحم کر‘‘۔ وہیں وائرل تصویر میں 30جون 2021کی تصویر کےساتھ باب التبانہ لکھا ہے اور لکھا ہے، میرا بیٹا مرنے والا ہے مجھے آکسیجن مشین کی سخت ضرورت ہے‘‘۔

پوسٹ کے آرکائیو ورژن کو یہاں دیکھی۔

پڑتال

اپنی پڑتال کا آغاز کرتے ہوئے سب سےپہلے ہم نےیہ جاننے کی کوشش کی کہ باب التبانہ کس ملک میں ہے۔ سرچ کئے جانے پر ہمیں معلوم ہوا کہ یہ لبنان کا ایک شہر ہے۔ مزید سرچ میں ہم نے گوگل رورس امیج کے ذریعہ وائرل تصویر کو تلاش کرنا شروع کیا۔ سرچ ہمیں یہ تصویر دا گارجنئین کی ویب سائٹ پر 2014 میں شائع ہوئے ایک آرٹیکل میں ملی۔ خبر میں اس تصویر کے ساتھ دی گئی معلومات کے مطابق یہ شام کے ایک اسپتال دار الشفا کے باہر کی تصویر ہے جہاں ایک والد اپنے اپنے انتقال کر چکے بیٹے کو لئے کھڑا ہے۔ مکمل خبر یہاں پڑھیں۔ اس خبر میں ہمیں تصویر کا اصل ذرائع ای پی اے کا حوالا بھی ملا۔

اپنی پڑتال کو آگے بڑھاتے ہوئے ہم ای پی اے کی ویب سائٹ پر پہنچے اور وہاں ہمیں وائرل تصویر کے ہی منظر کے پانچ دیگر تصاویر بھی دیکھیں۔ تصویر کے ساتھ دی گئی معلومات کے مطابق، ’ 03 اکتوبر 2012 کو دار الشفا ہسپتال کے سامنے ایک والد اپنے مردہ بچے کو لےکر رو رہا ہے۔ شامی فوج نے حلب پر گولہ باری جاری رکھی ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ ضلع الصخور اب ‘کرائے کے فوجیوں اور دہشت گردوں’ سے پاک ہے۔ ہمیں تصویر کے کریڈٹ میں میسن نام کی فوٹو گرافر کا نام نظر آیا۔

پوسٹ سے جڑی مزید تصدیق حاصل کرنے کے لئے ہم نے تصویر کو کھینچنے والی فوٹوگرافر میسن سے ٹویٹر کے ذریعہ رابطہ کیا اور وائرل پوسٹ ان کے ساتھ شیئر کی۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ یہ تصویر اکتوبر 2012 میں انہوں نے شام کے صوبہ حلب میں کھینچی تھی۔ شام میں فوجیوں کے حملہ سے اس بچے کا انتقال ہو گیا تھا اور اسی کے بعد کی یہ تصویر ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ وائرل پوسٹ کے ساتھ جو دعوی کیا جا رہا ہے وہ غلط ہے۔

اب باری تھی فرضی پوسٹ کو شیئر کرنے والے فیس بک صارف أبو جراح کی سوشل اسکیننگ کرنے کی ۔ ہم نے پایا کہ صارف نے خود سے جڑی کوئی بھی معلومات عوامی نہیں کی ہے۔

نتیجہ: وشواس نیوز نے اپنی پڑتال میں پایا کہ اس وائرل تصویر کے ساتھ جو دعوی شیئر کیا جا رہا ہے وہ غلط ہے۔ یہ تصویر 2012کی شام کی ہے، جب شامی فوجیوں کے حملہ میں اس بچے کا انتقال ہو گیا تھا۔

False
Symbols that define nature of fake news
مکمل سچ جانیں...

اگر آپ کو ایسی کسی بھی خبر پر شک ہے جس کا اثر آپ کے معاشرے اور ملک پر پڑ سکتا ہے تو ہمیں بتائیں۔ ہمیں یہاں جانکاری بھیج سکتے ہیں۔ آپ ہم سے ای میل کے ذریعہ رابطہ کر سکتے ہیں contact@vishvasnews.com
اس کے ساتھ ہی واٹس ایپ (نمبر9205270923 ) کے ذریعہ بھی اطلاع دے سکتے ہیں

Related Posts
Recent Posts