اس آرٹیکل میں دی گئی ان تمام وائرل پوسٹ کو حقیقی معاملہ یا تصویر سمجھ کر مذہب اسلام سے جوڑ کر شیئر کیا جا چکا ہے۔ اس آرٹیکل میں ہم ایسے ہی کچھ فیکٹ چیکس دیکھیں گے جن کی وشواس نیوز نے پڑتال کی اور انہیں فرضی یا گمراہ کن پایا۔
سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارم پر موجود صارفین اپنی عقیدت اور محبت اسلام کی بنیاد پر اکثر ہی ایسی وائرل پوسٹ شیئر کر دیتے ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے۔ صارفین ان تمام پوسٹ کو سچ سمجھ کر پھیلاتے ہیں اور یہاں تک کی صدقہ جاریہ کا حوالا دے کر ان پوسٹ کو زیادہ سے زیادہ لوگوں سے شیئر کرنے کی گزارش بھی کرتے ہوئے دیکھے جاتے ہیں۔ اس معاملہ سے منسلک ایسے ہی کئی پوسٹ کا وقت- وقت پر وشواس نیوز نے فیکٹ چیک کیا ہے۔
اس آرٹیکل میں دی گئی ان تمام وائرل پوسٹ کو حقیقی معاملہ یا تصویر سمجھ کر مذہب اسلام سے جوڑ کر شیئر کیا جا چکا ہے۔ اس آرٹیکل میں ہم ایسے ہی کچھ فیکٹ چیکس دیکھیں گے جن کی وشواس نیوز نے پڑتال کی اور انہیں فرضی یا گمراہ کن پایا۔
پہلی پوسٹ
سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز پر اکثر ہی ایک شخص کی تصویر وائرل ہو جاتی ہے۔ وائرل فوٹو میں ایک شخص کو مسجد کے احاطے میں سجدے کی حالت میں دیکھا جا سکتا ہے اور ان کے اوپر ایک جانماز بھی رکھی ہوئی ہے۔ اور آس پاس کھڑے لوگ اس منظر کو اپنے فون سے قید کرتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔ صارفین اس تصویر کو عقیدہ کے زاویے سے شیئر کر رہے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ مسجد نبوی میں سجدے کے دوران اس شخص کی موت ہو گئی۔
جبکہ ہم نے اپنی تحقیقات میں پایا ہے کہ تصویر میں نظر آرہا شخص مسجد نبوی میں نماز جمعہ کے دوران بیہوش ہوگیا تھا، سجدے کے دوران موت کا دعویٰ غلط ہے۔
مکمل فیکٹ چیک یہاں پڑھا جا سکتا ہے۔
وقت- وقت پر ایک تصویر وائرل ہوتی رہتی ہے جس میں ایک میوزیئم میں کچھ کپڑوں اور چپل کو رکھے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ وائرل فوٹو کو شیئر کرتے ہوئے صارفین دعوی کرتے ہیں کہ یہ حضرت محمد ﷺ کے لباس مبارک ہیں۔
جبکہ اس تصویر کی حقیقت کچھ اور ہی ہے۔ یہ تصویر نیشنل میوزیئم آف ڈنمارک میں موجود کلیکشنز میں سے ایک کی ہے اور اس میں رکھا سامانا مصر کے پادری کا تقریبا 2600 سال پرانا ہے۔ اس میں رکھےسامانا کا محمد ﷺ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
مکمل فیکٹ چیک یہاں پڑھا جا سکتا ہے۔
تیسری پوسٹ
حضرت محمد ﷺ کے نعلین شریف کے حوالے سے بھی سوشل میڈیا پر اکثر ایک تصویر وائرل ہو جاتی ہے۔ وائرل تصویر میں ایک جوڑی چپلوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔ صارفین اس تصویر کو اپنے مذہبی عقیدہ سے جوڑتے ہوئے دعوی کرتے ہیں کہ یہ حضرت محمد ﷺ کے نعلین شریف ہیں۔
جبکہ ہم نے اپنی پڑتال میں پایا کہ وائرل کیا جا رہا یہ دعوی غلط ہے۔ یہ تصویر حضرت محمد ﷺ کی نعلین شریف کی نہیں ہے۔
مکمل فیکٹ چیک یہاں پڑھا جا سکتا ہے۔
سوشل میڈیا پر ہوا میں لٹکے دو پتھروں کی تصویر بھی اکثر ہی سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز وائرل ہوتی رہتی ہے۔ اس تصویر کو شیئر کرتے ہوئے دعوی کیا جاتا ہے کہ آج سے 1400 سال پہلے حضرت مصطفی ﷺ نے ان پتھروں کو اپنے ہاتھوں سے باندھا تھا اور تب سے یہ ہوا میں اسی طرح موجود ہیں۔
وشواس نیوز نے اپنی پڑتال میں پایا کہ یہ تصویر مصر کے قائرہ ایئر پورٹ کی ہے جہاں پر یہ پتھر نصب ہیں۔ یہ پتھر مجسمہ ساز شعابان عباس کی تخلیق ہیں۔ ان پتھروں کا کوئی مذہبی زاوریہ نہیں ہے۔
مکمل فیکٹ چیک یہاں پڑھا جا سکتا ہے۔
پانچویں پوسٹ
پچھلے کئی برسوں سے سوشل میڈیا پر ایک قمیض کی تصویر وائرل ہوتی رہی ہے۔ اس تصویر کو شیئر کرتے ہوئے صارفین دعوی کرتے رہے ہیں کہ یہ قمیض حضور محمد ﷺ کی ہے۔
جبکہ وشواس نیوز نے اپنی پڑتال میں پایا کہ وائرل دعوی فرضی ہے۔ وائرل تصویر میں نظر آرہی قمیض بی بی فاطمہ کی ہے اور یہ ترکی کے توکاپی پیلس میوزئیم میں موجود ہے۔
مکمل فیکٹ چیک یہاں پڑھا جا سکتا ہے۔
چھٹی پوسٹ
حضور کے روضہ عقدس کے حوالے سے سوشل میڈیا پر ایک تصویر وائرل ہوئی جس میں گھر کے ایک نقشہ کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس تصویر کو شیئر کرتے ہوئے دعوی کیا جاتا ہے کہ یہ حضور ﷺ کے روضہ مبارک کا اندرونی منطر ہے۔
وشواس نیوز نے اپنی پڑتال میں وائرل پوسٹ گمراہ کن پائی۔ وائرل تصویر میں اصل میں نظر آرہی جگہ حضور کا روضہ نہیں ہے بلکہ سعودی کے میوزئیم دار المدینہ میں بنا روضہ مبارک کا ماڈل ہے۔
مکمل فیکٹ چیک یہاں پڑھا جا سکتا ہے۔
ساتویں پوسٹ
سعودی عرب کے حرم شریف میں موجود شخص کا ویڈیو اکثر ہی سوشل میڈیا پر وائرل ہوتا ہے۔ وائرل ویڈیو میں انہیں خوشی سے لوگوں کے گلے لگتے ہوئے اور یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ نماز پڑھنے سے ان کی آنکھوں کی روشنائی واپس آگئی۔ ویڈیو کو شیئر کرتے ہوئے صارفین یہ دعوی کرتے ہیں کہ یہ شخص نابینہ تھا اور مکہ حرم شریف میں نماز پڑھنے کے بعد ان کی آنکھوں کی روشنی واپس آگئی۔
وشواس نیوز نے جب اس ویڈیو کی پڑتال کی تو ہم نے پایا کہ یہ دعوی غلط ہے۔ یہ معاملہ سال 2016 میں مکہ میں پیش آیا تھا، حالاںکہ بعد میں پولیس نے اپنی تفتیش میں پایا تھا کہ یہ شخص نابینا نہیں تھا بلکہ چوری کے ارادے سے اس نے یہ جھوٹ بولا تھا۔
مکمل فیکٹ چیک یہاں پڑھا جا سکتا ہے۔
آٹھویں پوسٹ
سوشل میڈیا پر برسوں سے ایک سلائی مشین کی تصویر وائرل ہو رہی ہے اور اس کے ساتھ دعوی کیا جا رہا ہے کہ یہ سلائی کی مشین حضرت عائشہ استعمال کرتی تھیں۔
وشواس نیوز نے جب اس تصویر کی پڑتال کی تو یہ دعوی فرضی نکلا۔ وائرل سلائی مشین کی تصویر 1870کی ہے، جبکہ بی بی عائشہ تقریبا چودھ سو سال پہلے تھیں۔
مکمل فیکٹ چیک یہاں پڑھا جا سکتا ہے۔
اگر آپ کو ایسی کسی بھی خبر پر شک ہے جس کا اثر آپ کے معاشرے اور ملک پر پڑ سکتا ہے تو ہمیں بتائیں۔ ہمیں یہاں جانکاری بھیج سکتے ہیں۔ آپ ہم سے ای میل کے ذریعہ رابطہ کر سکتے ہیں contact@vishvasnews.com
اس کے ساتھ ہی واٹس ایپ (نمبر9205270923 ) کے ذریعہ بھی اطلاع دے سکتے ہیں