نئی دہلی (وشواس نیوز)۔ سوشل میڈیا پر 25 جون سے ایک ویڈیو تیزی سے وائرل ہو رہا ہے۔ اس ویڈیو میں ایک لڑکے اور ایک لڑکی کو خون سے لت پت دیکھا جا سکتا ہے۔ دعویٰ کیا جا رہا کہ ایک ہندو لڑکی کی مسلم لڑکے عصمت دری نہیں کر پائے تو اسے اور اس کے بھائی کو بری طرح مارا۔ وشواس ٹیم کی پڑتال میں پتہ چلا کہ ویڈیو میں خون سے لہولہان لڑکا اور لڑکی ہندو نہیں، مسلم ہیں۔ ملزمان اور متاثرین دونوں ہی ایک ہی کمیونٹی سے ہیں۔ زخمی بھائی- بہن کو ہندو بتانے والی پوسٹ فرضی ہے۔ حادثہ میں کوئی فرقہ وارانہ رنگ نہیں ہے۔
فیس بک سے لے کر ٹویٹر پر وائرل ہو رہے ویڈیو میں ایک لڑکا اور ایک لڑکی خون سے لہولہان نظر آرہے ہیں۔ دونوں بھائی- بہن ہیں۔ اس ویڈیو کو لے کر ناگیشور سنگھ بگھیل نام کے ایک فیس بک صارف نے دعویٰ کیا، ’’جھارکھنڈ حادثہ پر ایک ملزم (چور) کے لئے آنسو بہانے والے فرضی ہندووں، اس ویڈیو کو بھی دیکھ لو۔ لکھنئو میں یہ حادثہ انٹوجا تھانہ علاقہ کا گزشتہ روز کا ہے، پر امن مذہب یعنی مسلمانوں نے جن کا نام اسلام اور اس کے چار پانچ ساتھی اس لڑکے کی بہن کی عصمت دری کرنے آئے۔ اس نے عصمت دری نہیں کرنے دی تو بہن- بھائی دونوں کو بری طرح پیٹا۔ لیکن یہ حادثہ میڈیا کی سرخی نہیں بنا کیوں کہ یہ ہندو ہیں‘‘۔
رواں ماہ کی 25 تاریخ کو اپ لوڈ کئے گئے اس ویڈیو کو اب تک چار ہزار سے زیادہ مرتبہ دیکھا جا چکا ہے۔ تاہم 161 لوگ اسے شیئر کر چکے ہیں۔ اسی ویڈیو کو ہزاروں دیگر صارفین بھی مختلف کیپشنس سے سوشل میڈیا پر وائرل کر رہے ہیں۔
وشواس ٹیم نے سب سے پہلے وائرل ہو رہے ویڈیو کو غور سے دیکھا اور سنا۔ 45 سیکنڈ کے اس ویڈیو سے ہمیں یہ تو پتہ چلا کہ ملزم مسلم ہیں۔ حالاںکہ، یہ کہیں سے بھی نہیں پتہ چل پا رہا تھا کہ دونوں بھائی- بہن ہندو ہیں کیا؟ کیوں کہ سوشل میڈیا پر حادثہ کا ویڈیو فرقہ وارانہ اینگل لئے ہوئے وائرل ہو رہا تھا۔ اسلئے ہمیں یہ جاننا ضروری تھا۔
وشواس ٹیم نے وائرل پوسٹ میں استعمال کی گئی جگہ کا نام ’انٹوجا‘ کو گوگل میں سرچ کیا۔ ہمیں نیوز18 ڈاٹ کام (نیچے انگریزی میں دیکھیں) کی ایک خبر کا لنک ملا۔ 25 جون کو شائع ہوئی اس خبر سے ہمیں پتہ چلا کہ ویڈیو میں دکھ رہے لڑکے کا نام شاہ رخ ہے۔ ساتھ میں اس کی بہن ہے۔ خبر کے آخر میں لکھا تھا، ’’پولیس کےمطابق، حادثہ انٹوجا تھانہ علاقہ کا ہے۔ یہاں گھر کے سامنے کھیل رہے کچھ بچے/ نوجوان کی آپس میں لڑائی ہو گئی تھی۔ اسی کو لے کر دو گروپوں میں متنازعہ بڑھا اور مار پیٹ ہو گئی‘‘۔
News18.com
اس کے بعد وشواس ٹیم نے ان ویڈ ٹول کا استعمال کرتے ہوئے لکھنئو پولیس کے ٹویٹر ہینڈل پر حادثہ سے متعلق ٹویٹ سرچ کرنے شروع کئے۔ حادثہ 24 جون کا تھا، اسلئے ہم نے 24 جون سے لے کر 26 جون تک کے ٹویٹس کو سرچ کرنا شروع کیا۔ ہمیں انٹوجا حادثہ سے جڑے متعدد ٹویٹس ملے۔
جون کی 25 تاریخ کو صبح 8:48 بجے لکھنئو پولیس کی جانب سے کئے گئے ٹویٹ میں بتایا گیا، ’’تھانہ علاقہ انٹوجا میں گھر کے سامنے کھیل رہے بچے/ نوجوان کی آپس میں لڑائی ہو گئی۔ اسی کو لے کر دو گروپوں (ایک ہی کمیونٹی (مسلم) کے درمیان متنازعہ بڑھا اور مار پیٹ ہوئی‘‘۔
ٹویٹس آپ نیچے پڑھ سکتے ہیں۔
اس ٹویٹ کے کچھ گھنٹے بعد لکھئنو پولیس کا دوسرا ٹویٹ 10:22 بجے آتا ہے۔ اس میں بتایا گیا کہ ایس ایس پی نے انٹوجا حادثہ میں غیر انسانی سلوک کرنے کے سبب کانسٹیبل راہل کو فوری طور پر لائن حاضر کر دیا۔
اس کے بعد 11:28 بجے لکھئنو پولیس ایک اور ٹویٹ کرتی ہے۔ اس میں جانکاری دی جاتی ہے کہ انٹوجا معاملہ میں چاروں ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
اتنا کرنے کے بعد ہم نے لکھنئو پولیس کے ایس ایس پی آفس میں کال کیا۔ وہاں سے ہمیں پی آر او ابھیشیک تیواری کا نمبر ملا۔ وشواس ٹیم نے ابھیشیک تیواری سے رابطہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ وائرل ہو رہا ویڈیو لکھنئو کے انٹوجا کا ہی ہے۔ اس میں سبھی ایک ہی کمیونٹی کے لوگ تھے۔ فرقہ وارانہ اینگل پوری طرح غلط ہے۔
نتیجہ: وشواس ٹیم کی پڑتال میں پتہ چلا کہ لکھنئو کے انٹوجا میں ہوئے حادثہ میں کوئی فرقہ وارانہ اینگل نہیں ہے۔ ملزمان اور متاثرین دونوں ہی ایک کمیونٹی کے ہیں۔
اگر آپ کو ایسی کسی بھی خبر پر شک ہے جس کا اثر آپ کے معاشرے اور ملک پر پڑ سکتا ہے تو ہمیں بتائیں۔ ہمیں یہاں جانکاری بھیج سکتے ہیں۔ آپ ہم سے ای میل کے ذریعہ رابطہ کر سکتے ہیں
contact@vishvasnews.com
اس کے ساتھ ہی واٹس ایپ (نمبر9205270923 ) کے ذریعہ بھی اطلاع دے سکتے ہیں۔