وشواس نیوز نے اس کی جانچ کی۔ ہماری تفتیش میں یہ فرضی ثابت ہوا۔ اس کی تردید خود اے بی پی نیوز نے کی ہے۔
نئی دہلی (وشواس نیوز)۔ اے بی پی نیوز کے نام سے ایک اسکرین شاٹ سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر شیئر کیا جا رہا ہے۔ اس میں اے بی پی لائیو کے لوگو کا استعمال کرتے ہوئے تصویر کے ساتھ لکھا گیا ہے کہ ہندو لڑکیاں مسلمان لڑکوں پر کیوں فدا ہوتی ہیں۔ تصویر میں ایک مسلمان نوجوان کے ساتھ چار لڑکیاں دکھائی دے رہی ہیں۔ سوشل میڈیا پر کچھ صارفین اسے اے بی پی نیوز کی حقیقی خبروں سے متعلق تخلیقی سمجھ کر شیئر کر رہے ہیں۔
وشواس نیوز نے اس کی جانچ کی۔ ہماری تفتیش میں یہ فرضی ثابت ہوا۔ اس کی تردید خود اے بی پی نیوز نے کی ہے۔
سوشل میڈیا صارف نے 13 نومبر کو اے بی پی لائیو کے نام سے وائرل کریٹیو کا استعمال کرتے ہوئے لکھا
“یہ ہندوستانی میڈیا ہے۔ اس سفارشی کو سلام۔”
وائرل پوسٹ کو یہاں ویسا ہی لکھا گیا ہے۔ دوسرے صارفین بھی اسی طرح کے دعووں کے ساتھ اسے شیئر کر رہے ہیں۔ پوسٹ کے آرکائیو ورژن کو یہاں دیکھیں۔
وشواس نیوز نے وائرل پوسٹ کی حقیقت جاننے کے لیے سب سے پہلے کی ورڈ سرچ کیا۔ گوگل اوپن سرچ ٹول کی مدد سے وائرل پوسٹ کو سرچ کیا۔ ہمیں اے بی پی لائیو پر ایک خبر ملی۔ 13 نومبر کو شائع ہونے والی اس خبر میں اے بی پی لائیو نے اسے جعلی قرار دیا۔ خبر میں لکھا گیا، “اے بی پی نیوز کی ویب سائٹ نے ایسی کوئی خبر نہیں بنائی ہے اور نہ ہی اسے اے بی پی نیوز کے کسی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے ذریعے شیئر کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ اسکرین شاٹ مکمل طور پر جعلی ہے اور کچھ انتشار پسند اور سماج دشمن عناصر نے اسے جان بوجھ کر وائرل کیا ہے۔ مکمل خبر یہاں پڑھی جا سکتی ہے۔
سرچ کے دوران اے بی پی نیوز کے ایکس ہینڈل پر ایک پوسٹ بھی ملی۔ 13 نومبر کی پوسٹ میں لکھا گیا تھا، ’’اے بی پی نیوز کے نام سے سوشل میڈیا پر پھیلایا جا رہا یہ پوسٹ کارڈ مکمل طور پر جعلی ہے۔ ایسی کوئی پوسٹ اے بی پی نیوز کے سوشل میڈیا ہینڈلز پر شیئر نہیں کی گئی ہے۔ کچھ سماج دشمن عناصر باہمی ہم آہنگی کو بگاڑنے کے مقصد سے ایسی پوسٹیں شئیر کر رہے ہیں۔ ہم ایسے لوگوں کے خلاف قانونی کارروائی کریں گے۔ آپ سے درخواست ہے کہ جعلی خبروں سے گریز کریں اور سچی خبروں کے لیے صرف ہمارے سوشل میڈیا ہینڈلز پر بھروسہ کریں۔
تحقیقات کو آگے بڑھاتے ہوئے وشواس نیوز نے اے بی پی نیوز کی سینئر اینکر چترا ترپاٹھی سے رابطہ کیا۔ انہوں نے وائرل پوسٹ کو مکمل طور پر جعلی بھی قرار دیا۔
تحقیقات کے اختتام پر فیس بک صارف سے تفتیش کی گئی۔ صارف کو 46 ہزار سے زائد لوگ فالو کرتے ہیں۔ صارف لکھنؤ، یوپی میں رہتا ہے۔
نتیجہ: وشواس نیوز نے اس کی جانچ کی۔ ہماری تفتیش میں یہ فرضی ثابت ہوا۔ اس کی تردید خود اے بی پی نیوز نے کی ہے۔
اگر آپ کو ایسی کسی بھی خبر پر شک ہے جس کا اثر آپ کے معاشرے اور ملک پر پڑ سکتا ہے تو ہمیں بتائیں۔ ہمیں یہاں جانکاری بھیج سکتے ہیں۔ آپ ہم سے ای میل کے ذریعہ رابطہ کر سکتے ہیں contact@vishvasnews.com
اس کے ساتھ ہی واٹس ایپ (نمبر9205270923 ) کے ذریعہ بھی اطلاع دے سکتے ہیں