فیکٹ چیک: منی پور میں خاتون پر ہوئی تشدد کے ویڈیو کو کیا جا رہا فرضی فرقہ وارانہ دعوی سے وائرل
وشواس نیوز نے اپنی پڑیال میں پایا کہ وائرل کیا جا رہا دعوی فرضی ہے۔ ویڈیو میں وردی میں نظر آرہے لوگ بھارتیہ پولیس کے نہیں بلکہ منی پور کی عکسریت پسند تنظیم کے لوگ تھے۔ اس کے علاوہ تشدد کا شکار ہو رہی خاتون ایک ڈرگ ڈیلر تھی۔ ویڈیو کو فرضی دعوی فرقہ وارانہ دعوی کے ساتھ پھیلایا جا رہا ہے۔
- By: Umam Noor
- Published: Jul 29, 2024 at 06:56 PM
- Updated: Jul 30, 2024 at 06:13 PM
نئی دہلی (وشواس نیوز)۔ سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہو رہا ہے جس میں نے یونیفارم پہنے کچھ لوگ ایک خاتون کو بےدردی سے مارتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ ویڈیو کو شیئر کرتے ہوئے متعدد صارفین دعوی کر رہے ہیں کہ منی پور میں ایک مسلم خاتون پر بھارتیہ پولیس کی تشدد کا یہ ویڈیو ہے وہیں دیگر صارفین ویڈیو کے ساتھ یہ دعوی کر رہے ہیں کہ یہ لوگ گو رکشن ہیں جو مسلمان ہونے کی وجہ سے خاتون پر ظلم کر رہے ہیں۔
وشواس نیوز نے اپنی پڑیال میں پایا کہ وائرل کیا جا رہا دعوی فرضی ہے۔ ویڈیو میں وردی میں نظر آرہے لوگ بھارتیہ پولیس کے نہیں بلکہ منی پور کی عکسریت پسند تنظیم کے لوگ تھے۔ اس کے علاوہ تشدد کا شکار ہو رہی خاتون ایک ڈرگ ڈیلر تھی۔ ویڈیو کو فرضی دعوی فرقہ وارانہ دعوی کے ساتھ پھیلایا جا رہا ہے۔
کیا ہے وائرل پوسٹ میں؟
ایکس صارف نے وائرل پوسٹ کو شیئر کرتے ہوئے لکھا، ’’بھارت کا مکروہ چہرہ بھارت کی ریاست منی پور میں ایک با پردہ مسلمان خاتون کو غلیظ بھارتی فوجی بے دردی سے پیٹ رہے ہیں‘‘۔
پوسٹ کے آرکائیو ورژن کو یہاں دیکھیں۔
پڑتال
اپنی پڑتال کو شروع کرتے ہوئے سب سے پہلے ہم نے گوگل لینس کے ذریعہ وائرل ویڈیو کے کی فریمس کو سرچ کیا۔ سرچ میں ہمیں ایک فیس بک پیج پر وائرل ویڈیو اور اسی کا ایک لمبا ورژن اپلوڈ ہوا ملا۔ یہاں ویڈیو کے ساتھ دی گئی معلومات کے مطابق، یہ ڈرگ ڈیلر کی پٹائی کا ویڈیو ہے۔
اسی پوسٹ میں ہمیں وائرل ویڈیو کا ہی ایک دوسرا ویڈیو بہتر کوالٹری میں اپلوڈ ہوا ملا۔ یہاں تشدد کر رہی خواتین کی وردی پر ہمیں ’ایم پی اے‘ لکھا ہوا نظر آیا اور ساتھ ہی ایک لال رنگ کا بیچ بھی دکھا۔
اپنی پڑتال کو آگے بڑھاتے ہوئے ہم نے ’ایم پی اے منی پور‘ کی ورڈ کو اوپن سرچ کیا۔ سرچ میں ہمیں اسی نام کا ایک فیس بک پیج ملا۔ اس پیج پر ہمیں بہت سے ویڈیو اور تصاویر ملی جس میں ہوبہو وہی وردی دیکھی جا سکتی ہے جیسا کہ وائرل ویڈیو میں نظر آرہی ہے۔ ان سبھی کی وردی پر وہی ایم پی اے اور اسی وائرل ویڈیو والے لوگو کو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
اب تک کی پڑتال سے یہ تو واضح تھا کہ وائرل ویڈیو میں ایم پی اے کے عکسریت پسند تھے، حالاںکہ ہم نے ایم پی اے سے متعلق مزید معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی۔ نیوز سرچ میں ہمیں پتہ چلا کہ ’’یونائیٹڈ نیشنل لبریشن فرنٹ (یو این ایل ایف)، منی پور ریاست کا سب سے پرانا میتی اعکسریت پسند گروپ ہے جو 24 نومبر 1964 کو اریمبم سمریندر سنگھ کی قیادت میں آزادی اور ایک سوشلسٹ سماج کے حصول کے لیے تشکیل دیا گیا تھا۔ یو این ایل ایف نے ہی منی پور پیپلز آرمی (ایم پی اے) کے نام سے ایک مسلح ونگ تشکیل دی تھی‘۔
وائرل پوسٹ کے ساتھ کئے جا رہے فرقہ وارانہ دعوی سے متعلق ہم نے اپنی پڑتال کو آگے بڑھایا اور سرچ کئے جانے پر ہمیں ویڈیو میں نظر آرہی خاتون کی ایک تصویر متعدد دیگر تصاویر کے ساتھ ایک فیس بک پیج پر اپلوڈ ہوئی ملی۔ یہاں دی گئی معلومات کے مطابق یہ خاتون ڈرگ ڈیلر ہے۔
پڑتال کو آگے بڑھاتے ہوئے ہم نے منیپور پولیس کے آفیشیئل ایکس ہینڈل کو سرچ کیا۔ سرچ میں ہمیں اسی وائرل ویڈیو پر منی پور پولیس کا رپلائی پوسٹ ملا جس میں اس ویڈیو کے ساتھ کئے جا رہے فرقہ وارانہ دعوی کو فرضی بتایا گیا ہے۔ منی پور پولیس نے پوسٹ کرتے ہوئے لکھا ہے،’’منشیات فروشی میں ملوث ہونے کے مبینہ الزام کے تحت شرپسندوں نے خاتون کو زدوکوب کیا تھا۔ پولیس نے اس سلسلے میں مقدمہ درج کرلیا ہے۔ اس میں کوئی فرقہ وارانہ زاویہ نہیں ہے‘‘۔
وائرل ویڈیو سے متعلق تصدیق کے لئے ہم نے منی پور میں اے این آئی کے رپورٹر سے رابطہ کیا اور انہوں نے ہمیں تصدیق دیتے ہوئے بتایا کہ، ’’وائرل ویڈیو میں نظر آرہی خاتون کو یو این ایل ایف کی ایم پی اے ونگ سے ڈرگ ڈیلنگ کے الزام میں پیٹا تھا اس معاملہ کا کوئی فرقہ وارانہ اینگل نہیں ہے‘‘۔
اب باری تھی فرضی پوسٹ کو شیئر کرنے والے ایکس صارف کی سوشل اسکیننگ کرنے کی۔ ہم نے پایا کہ صارف کو ایکس پر پانچ ہزار سے زیادہ لوگ فالوو کرتے ہیں۔
نتیجہ: وشواس نیوز نے اپنی پڑیال میں پایا کہ وائرل کیا جا رہا دعوی فرضی ہے۔ ویڈیو میں وردی میں نظر آرہے لوگ بھارتیہ پولیس کے نہیں بلکہ منی پور کی عکسریت پسند تنظیم کے لوگ تھے۔ اس کے علاوہ تشدد کا شکار ہو رہی خاتون ایک ڈرگ ڈیلر تھی۔ ویڈیو کو فرضی دعوی فرقہ وارانہ دعوی کے ساتھ پھیلایا جا رہا ہے۔
- Claim Review : ایک مسلم خاتون پر بھارتیہ پولیس کا تشدد ۔
- Claimed By : X User- @a_sab_jui
- Fact Check : جھوٹ
مکمل حقیقت جانیں... کسی معلومات یا افواہ پر شک ہو تو ہمیں بتائیں
سب کو بتائیں، سچ جاننا آپ کا حق ہے۔ اگر آپ کو ایسے کسی بھی میسج یا افواہ پر شبہ ہے جس کا اثر معاشرے، ملک یا آپ پر ہو سکتا ہے تو ہمیں بتائیں۔ آپ نیچے دئے گئے کسی بھی ذرائع ابلاغ کے ذریعہ معلومات بھیج سکتے ہیں۔