نئی دہلی (وشواس نیوز)۔ کشمیر کے حالیہ حالات کو دیکھتے ہوئے وشواس ٹیم کی کوشش جاری ہے ہر اس ویڈیو اور تصویر کی حقیقت سامنے لانے کی جسے کشمیر کے نام سے وائرل کیا جا رہا ہے۔ اسی طرز میں ہمارے ہاتھ ایک ویڈیو لگا جسے کشمیر کے نام سے گزشتہ کچھ روز سے وائرل کیا جا رہا ہے۔ اس ویڈیو میں ایک بزرگ شخص اور زمین پر پڑے ہلاک شدہ نوجوان کو دیکھا جا سکتا ہے۔ فیس بک صارفین دعویٰ کر رہے ہیں کہ یہ ویڈیو کشمیر کا ہے جب کہ وشواس ٹیم کی پڑتال میں یہ دعویٰ فرضی ثابت ہوتا ہے۔ وائرل ویڈیو کشمیر کا نہیں بلکہ شامی صوبہ ادلب کے کفرنوبل علاقہ کا ہے جہاں 27 اگست کے روز ہوئے ایک فضائیہ حملہ کے بعد نوجوان ہلاک ہو گیا تھا۔
فیس بک صارف فرحان الدین اویسی نے 3 ستمبر کو ایک ویڈیو شیئر کرتے ہوئے اس کا کیپشن لکھا: ’’کشمیر کے اندر 90 سال کے بزرگ والد اپنے بیٹے کی لاش کو 2 دن سے دفن نہیں کر پا رہے ہیں۔ یہ کہاں کا انصاف ہے صاحب کشمیر اور کشمیریوں کے ساتھ‘‘۔
اس ویڈیو کو اب تک 7 ہزار سے بھی زیادہ مرتبہ شیئر کیا جا چکا ہے۔ وہیں اب تک 90,505 لوگ اس ویڈیو کو دیکھ چکے ہیں۔
ہم نے پڑتال کا اغاز کیا اور سب سے پہلے ان ویڈ ٹول کے ذریعہ ویڈیو کے کی فریمس نکالے اور ان کا رورس امیج سرچ کیا۔ سرچ میں ہمارے ہاتھ انسٹا فینومیننس نام کا ایک سوشل میڈیا ہینڈل لگا جس میں مہتاب اے نام کے ایک صارف نے ہو بہو ویڈیو سے ملتی جلتی ایک تصویر کو شیئر کیا ہوا تھا۔ اس تصویر کو 4 روز قبل یعنی 1 ستمبر کو شیئر کیا گیا ہے۔ اس تصویر میں نظر آرہے شخص اور وائرل ویڈیو کے بزرگ کو دیکھنے پر صاف معلوم ہوتا ہے کہ دونوں ایک ہی ہیں۔ علاوہ ازیں ویڈیو میں بھی اسی طرح نیلی رنگ کی قمیض پہنے نوجوان زمین پر پڑا ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ویڈیو اور تصویر میں نظر آرہی جگہ بھی ایک ہی ہے۔
تصویر کے ساتھ دیا گیا کیپشن دیگر زبان میں تھا اور ہم نے اس کا ترجمہ گوگل ٹرانسلیٹ کی مدد سے کیا۔ ادور میں اس کا ترجمہ ہوتا ہے، ’’یہاں سے، خدا کی تخلیق کا سب سے کپڑا پوتن اور لیونت کا جانور ، بشار الاسد رہا ہے۔ # شام‘‘۔ یہ ترجمہ ہمیں زیادہ پر یقین تو نہیں لگا لیکن اس میں دئے گئے #شام سے یہ بات پتہ چلا کی صارف نے اس تصویر کو شام سے جوڑ کر شیئر کیا ہے۔
ابتدائی طور پر اس تصویر کو شام کی مان کر ہم نے پڑتال جاری کی۔ اور ہمارے ہاتھ متعدد ایسے لنک لگے جس میں اس تصویر کا استعمال کیا گیا تھا۔
اسی سرچ میں ہمارے ہاتھ بلدی ڈاٹ نیوز ڈاٹ کام کا ایک لنک لگا جس میں بھی اسی تصویر کا استعمال کیا گیا تھا۔ 29 اگست 2019 کو شائع کی گئی خبر کی سرخی کا ہم نے ٹرانسلیٹنگ ٹول کی مدد سے ترجمہ کیا اس کے مطابق، اس کی سرخی ہے، ’’انسانی حقوق کے ایک نیٹ ورک نے شمالی شام میں چار ماہ تک اضافے کے دوران 969 شہریوں کی ہلاکت کی دستاویز دی ہے‘‘۔
ہم نے اپنا سرچ جاری رکھا اور ہمیں سلوی نام کے صارف کی جانب سے 27 اگست کو کیا گیا ایک ٹویٹ ملا۔ ٹویٹ میں وہی بزرگ اور نوجون نظر آئے جسے وائرل ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے۔ ٹویٹ کا ادرو میں کچھ طرح ٹرانسلیٹنگ ٹول کی مدد سے ترجمہ ہوا، ’’ایک بوڑھے نے آج ادلب کے جنوب میں کفرنوبل شہر میں ہوئی گولہ باری میں اپنے بیٹے کو کھو دیا۔‘‘۔
اب ہم نے گزشتہ روز شام میں ہوئے تمام حملوں کی تصاویر اور ویڈیو کو تلاش کرنا شروع کیا اور سب سے پہلے گوگل پر 20 اگست 2019 سے لے کر 31 اگست 2019 تک کی ٹائم لائن سیٹ کی۔ اس نیوز سرچ میں ہمارے ہاتھ اینب دلدی کی ایک خبر کا لنک لگا۔ اس خبر کو 27 اگست 2019 کو شائع کیا گیا تھا۔ خبر کے مطابق، ’’قنبر البیویش: ادلب کفرنوبل سے تعلق رکھنے والے انیس افراد نے شامی حکومت کی گولہ باری میں اپنا تیسرا بیٹا کھو دیا‘‘۔
گوگل ٹرانسلیٹ کی مدد سے ہم نے اس پوری خبر کا ترجمہ کیا اور ہمیں معلوم ہوا کہ شام کے ادلب میں 27 اگست کو ایک حملہ کے دوران قنبر البیویش نام کے ایک بزرگ شخص نے اپنا تیسرا بیٹا نحاد کو بھی کھو دیا۔ پوری خبر کا ترجمہ نیچے دیکھا جا سکتا ہے۔
مذکورہ خبر میں ایک ٹویٹ بھی ایمبیڈ نظر آیا۔ اس ٹویٹ میں بھی اسی وائرل تصویر کو دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ ٹویٹ 27 اگست کو ’’الدفاع المدني السوري‘‘ کے ویری فائڈ ہینڈل سے کیا گیا ہے۔ یہ ٹویٹ بھی عربی زبان میں تھا جس کا ہم نے ترجمہ کیا اور اس کو ادرو میں کچھ طرح پڑھیں گے، ’’قنبر البیویش، آج صبح کافر نبیل شہر پر راکٹ گولہ باری کا نشانہ بننے کے بعد اپنے شہید بیٹے کی لاش کے پاس بیٹھا ہے۔ نحاد وہ تیسرا بچہ ہے جو شہید ہوا ہے۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ ہمیں صبر کا سبق دے رہے ہیں؟
شہدا پر رحم‘‘۔
اس ویڈیو کو ہم نے یو ٹیوب پر بھی تلاش کرنے کی کوشش کی۔ ہمارے سرچ میں ہمیں ’عبد الكريم الحلبي‘ کی جانب سے 27 اگست کو اپ لوڈ کیا ہوا یہی ویڈیو ملا جسے اب کشمیر کے نام سے وائرل کیا جا رہا ہے۔ ویڈیو کے ساتھ دئے گئے کیپشن کے اردو ترجمہ کے مطابق، ’’ادلیب کے جنوبی علاقوں میں کافرانبل شہر پر روسی فضائی حملے کے بعد ایک 90 سالہ والد نے اپنے تیسرے بیٹے کو الوداع کیا‘‘۔
پڑتال میں یہ تو واضح ہو چکا تھا کہ وائرل ویڈیو کشمیر کا نہیں بلکہ شام کے ادلب کا ہے۔ لیکن ہم نے خبر کی مزید تصدیق کے لئے جموں و کشمیر کے سینئر رپورٹر راہل شرما کے ساتھ ویڈیو شیئر کیا اور انہوں نے اس ویڈیو سے متعلق اے ڈی جی پی (لا اینڈ آرڈر) منیر خان سے بات کی، اے ڈی جی پی نے کہا کہ ’’کشمیر کے نام سے وائرل ہو رہے ویڈیو اور تصاویر فرضی ہیں اور کچھ ہی دنوں میں ہم ایک ٹیم کی تشکیل دیں گے جو مذکورہ معاملہ پر کام کرےگی‘‘۔
اس سے قبل بھی کشمیر کے نام سے سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی فرضی ویڈیوز اور تصاویر کا وشواس نیوز نے پردہ فاش کیا ہے اور سچائی بتائی ہے۔ تمام خبروں کو آپ یہاں پڑھ سکے ہیں۔
نتیجہ: وشواس ٹیم کی پڑتال میں کشمیر کے نام سے وائرل ہو رہا ویڈیو فرضی ثابت ہوتا ہے۔ ویڈیو کشمیر کا نہیں بلکہ شامی صوبہ ادلب کے کفرنوبل علاقہ کا ہے، جہاں 27 اگست کو ہوئے ایک فضائیہ حملہ میں اس بزرگ شخص کا بیٹا ہلاک ہو گیا تھا۔