وشواس نیوز نے اپنی پڑتال میں پایا کہ ورجینیا کی مسجد میں عید کی نماز کے دوران بدسلوکی کرنے والی خاتون مسلمان تھیں۔ ویڈیو کے ساتھ کیا جا رہا فرقہ وارانہ دعوی فرضی ہے۔
نئی دہلی (وشواس نیوز)۔ سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہو رہا ہے جہاں ایک خاتون مسجد کے اندر موجود سیکیورٹی گارڈس سے بحث کرتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔ اور پھر گارڈز خاتون کو باہر نکال دیتے ہیں۔ ویڈیو کو شیئر کرتے ہوئے صارفین دعوی کر رہے ہیں کہ امریکی ریاست ورجینیا میں عید کی نماز دروانان ایک ہندو عورت مسجد کے منبر پر چڑھ گئی اور اسلام اور مسلمان کے خلاف بولا۔
وشواس نیوز نے اپنی پڑتال میں پایا کہ ورجینیا کی مسجد میں عید کی نماز کے دوران بدسلوکی کرنے والی خاتون مسلمان تھیں۔ ویڈیو کے ساتھ کیا جا رہا فرقہ وارانہ دعوی فرضی ہے۔ خاتون کا تعلق ہندو مذہب سے نہیں تھا۔
فیس بک صارف نے وائرل پوسٹ کو شیئر کرتے ہوئے لکھا، ’’امریکی کی ریاست ورجینیا میں کل عید کی نماز دروان ایک عجیب واقعہ پیش آیا جب ایک ہندو عورت مسجد کے منبر پر چڑھ گئی اور اس نے اسلام اور مسلمان کے خلاف زہر اُگلنا شروع کر دیا۔ مسجد اس وقت نمازیوں سے بھری پڑی تھی۔ مگر اسکے باوجود بھی مسجد میں موجود مسلمانوں میں سے کسی نے اسے بزور قوت روکنے اور زدوکوب کرنے کی کوشش نہیں کی۔ شاید وہاں کوئی تحریک لبیک یا نام نہاد عاشق رسول موجود نہیں تھا۔ بلکہ مقامی پولیس کو اطلاع دی جو کہ فوراً وہاں پہنچی اور اس عورت کو مسجد سے باہر نکال دیا۔ اس واقعے سے دو اہم پہلو سامنے آتے ہیں۔ اول مسلمان فطری طور پر پرتشدد نہیں ہوتے بلکہ وہ حد درجہ برداشت کا مظاہرہ کرتے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اور دوسرا کہ جب معاشرے میں قانون اور انصاف کی عملداری ہو تو لوگوں کو قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ بہرحال اس واقعے میں مسلمانوں کے طرزِ عمل سے اسلام کا اصل اور حقیقی چہرہ دنیا کے سامنے اجاگر ہوگا ۔ ساتھ ہی ہندوتوا کا بڑھتا ہوا فساد اور بخار بھی دنیا کے سامنے آشکار ہوجاۓ گا ‘‘۔
پوسٹ کے آرکائیو ورژن کو یہاں دیکھیں۔
اپنی پڑتال کو شروع کرتے ہوئے سب سے پہلے ہم نے ’ورجینیا+عید + خاتون+ بدسلوکی کے کی ورڈ کے ساتھ نیوز سرچ کیا۔ سرچ میں ہمیں ’آل ڈلس ایریا مسلم سوسائٹی (آدمز) نام کے ایک ویری فائڈ فیس بک پیج پر اسی معاملہ سے متعلق ایک پوسٹ ملی۔ یہاں دی گئی تفصیل کے مطابق، ’’ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ مسجد میں 21 اپریل بروز جمعہ آدمز‘ سٹرلنگ، ورجینیا میں نماز عید کے دوران پیش آنے والے حالیہ واقعے میں مسلم کمیونٹی سے تعلق رکھنی خاتون ذہنی صحت کے مسائل سے دوچار تھیں۔ ان کے اہل خانہ عید کی نماز کے دوران صبح ہونے والے واقعے کے لیے تہہ دل سے معافی مانگتے ہیں۔ اہل خانہ نے درخواست کی ہے کہ جن لوگوں نے ویڈیو پوسٹ کی ہے وہ براہ کرم اسے سوشل میڈیا سے ہٹا دیں تاکہ خاندان کی رازداری کی حفاظت کی جا سکے کیونکہ ویڈیو خاندان کے لیے اضافی دباؤ کا باعث بن رہی ہے۔ دماغی صحت کے چیلنجز زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو متاثر کر سکتے ہیں، اور ہمدردی اور سمجھ بوجھ کے ساتھ ایسے حالات سے رجوع کرنا ضروری ہے۔ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ یہ ایک الگ تھلگ واقعہ تھا‘‘۔
اسی کمینٹ سیکشن میں ہمیں ایک شخص کا کمینٹ ملا جس نے کہا تھا کہ، ’’مجھے لگتا ہے وہ خاتون ہندو تھی‘‘۔ اس پر جواب دیتے ہوئے اسی مسجد کی جانب سے بتایا گیا کہ، ’’ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ خاتون کا تعلق مسلم برادری سے ہی ہے اور وہ ذہنی پیچیدگی سے دوچار ہیں‘‘۔
مزید سرچ کرتے ہوئے ہمیں آدمز کے اس فیس بک پیج پر وائرل ویڈیو کے ہی منظر والی تصاویر ملی، جس سے یہ بات صاف ہوتی ہے کہ یہ معاملہ ورجینیا کی عادمس مسجد میں پیش آیا تھا۔
مزید تصدیق کے لئے ہم نے امریکہ کے صحافی سبوخ سید سے رابطہ کیا اور وائرل پوسٹ ان کے ساتھ شیئر کی۔ انہوں نے ہمیں تفصیل دیتے ہوئے بتایا کہ ’’وائرل ویڈیو میں نظر آرہی خاتون مسلمان ہی تھی، ہندو نہیں‘‘۔
ویڈیو کو فرضی دعوی کے ساتھ شیئر کرنے والے فیس بک پیج کی سوشل اسکیننگ میں ہم نے پایا کہ اس پیج کو پاکستان سے چلایا جاتا ہے اور 23 ہزار لوگ مذکورہ پیج کو فالوو کرتے ہیں۔
نتیجہ: وشواس نیوز نے اپنی پڑتال میں پایا کہ ورجینیا کی مسجد میں عید کی نماز کے دوران بدسلوکی کرنے والی خاتون مسلمان تھیں۔ ویڈیو کے ساتھ کیا جا رہا فرقہ وارانہ دعوی فرضی ہے۔
اگر آپ کو ایسی کسی بھی خبر پر شک ہے جس کا اثر آپ کے معاشرے اور ملک پر پڑ سکتا ہے تو ہمیں بتائیں۔ ہمیں یہاں جانکاری بھیج سکتے ہیں۔ آپ ہم سے ای میل کے ذریعہ رابطہ کر سکتے ہیں contact@vishvasnews.com
اس کے ساتھ ہی واٹس ایپ (نمبر9205270923 ) کے ذریعہ بھی اطلاع دے سکتے ہیں