فیکٹ چیک: ویڈیو کا وارانسی سے کوئی تعلق نہیں ہے، فرضی اور فرقہ وارانہ دعوی کے ساتھ ہو رہا وائرل

مسلما بچوں پر پولیس کی بربریت کے دعوی کے ساتھ وائرل ہو رہے ویڈیو کا وارانسی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

نئی دہلی (وشواس نیوز)۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہے ایک ویڈیو میں زخمی بچے کو دیکھا جا سکتا ہے۔ دعوی کیا جا رہا ہے کہ یہ ویڈیو وارانسی کا ہے، جہاں یو پی پولیس نے اسکول جانے والے بچے کو پیٹا ہے۔

وشواس نیوز کی پڑتال میں یہ دعوی فرضی نکلا۔ وائرل ہو رہا ویڈیو پرانا ہے اور اس کا وارانسی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔اسے فرضی اور فرقہ وارانہ زاویہ کے ساتھ پھیلایا جا رہا ہے۔

کیا ہے وائرل پوسٹ میں

فیس بک صارف ابنو‘ نے جماعت اسلامی سائبر فورس سوات سپر اسٹار نام کے ایک گروپ پر وائرل ویڈیو کو شیئر کرتے ہوئے لکھا ہے
‘‘#Indian_Muslims_in_danger#UNHCR#islamophobia_in_india#Kashmir * This shocking video of the Yogi Police in Varanasi (UP), how the children of the mosque and school were killed mercilessly, and showed the entire world what is happening in India * * Share please *’’

اردو ترجمہ: ہندوستانی مسلم حطرہ میں ہیں۔ یہ حیران کرنے والا ویڈیو اترپردیش کے وارانسی کا ہے، جہاں بچوں کو مسجد اور اسکول سے نکال کر مارا جا رہا ہے۔ دنیا کو دیکھاو کہ ہندوستان میں کیا ہو رہا ہے‘‘۔

پڑتال

ٹویٹر صارف ’المحاميه / دلال العجمي-باحث دكتوراه بالقانون ’ نے بھی اس ویڈیو کو شیئر کرتے ملتا جلتا دعوی کیا ہے۔

https://twitter.com/Dalal_alajmi_/status/1264633548558008322

اسی ٹویٹ پر ایک دیگر صارف میمد طارق نے لکھا ہے، ’یہ وارانسی کا معاملہ نہیں ہے۔ یہ میری آبائی ضلع جلال آباد، ضلع بجنور کا معاملہ ہے، جب مقامی لوگوں نے 20 دسمبر (2019) شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف مظاہرہ کیا جا رہا تھا‘ جب بچہ سے پوچھا جاتا ہے کہ اسے کسنے مارا، تو وہ بتایا ہے، ’اسے پولیس نے مارا ہے‘۔

یہاں ملی معلومات کے بعد جب ہم نے ’بجنور پولیس جلال آباد بچے‘ کی ورڈ کے ساتھ یوٹیوب سرچ کیا تو ہمیں 28 دمسمبر 2019 کو ’ہندی ٹائمس نیوز‘ کے یوٹیوب چینل پر اپ لوڈ کیا گیا ایک ویڈیو بولیٹن ملا، جس میں دعوی کیا گیا ہے کہ جلال آباد میں ہنگامہ آرائی کے دوران لوگوں نے بھی پولیس پرمعصوم بچوں پر لاٹھی چارج کرنے کا الزام لگایا ہے۔

حالاںکہ، وشواس نیوز آزادنہ طور پر ان الزامات کی تصدیق نہیں کرتا ہے، لیکن یہ واضح ہے کہ یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر 2019کے دسمبر مہینہ سے موجود ہے۔

وائرل ویڈیو کو لے کر کئے گئے ٹویٹر سرچ میں ہمیں وارانسی کا ایک ٹویٹ ملا، جس میں بتایا گیا ہے کہ یہ ویڈیو کافی پرانا ہے اور وارانسی سے منسلک نہیں ہے۔ وارانسی پولیس کی جانب سے جاری گئی تفصیلی صفائی کو یہاں پڑھا جا سکتا ہے۔

وشواس نیوز نے اس لے کر وارانسی کے سینئر ایس پی پربھاکر چودھری سے رابطہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ، ’وائرل ویڈیو کا وارانسی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس بارے میں وارانسی پولیس کی جانب سے وضاحت بھی دی جا چکی ہے۔

اب باری تھی اس پوسٹ کو فرضی دعوی کے ساتھ وائرل کرنے والے فیس بک صارف ابنو کی سوشل اسکیننگ کرنے کی۔ ہم نے پایا کہ اس صارف کا تعلق انڈونیشیا سے ہے۔

نتیجہ: مسلما بچوں پر پولیس کی بربریت کے دعوی کے ساتھ وائرل ہو رہے ویڈیو کا وارانسی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

False
Symbols that define nature of fake news
مکمل سچ جانیں...

اگر آپ کو ایسی کسی بھی خبر پر شک ہے جس کا اثر آپ کے معاشرے اور ملک پر پڑ سکتا ہے تو ہمیں بتائیں۔ ہمیں یہاں جانکاری بھیج سکتے ہیں۔ آپ ہم سے ای میل کے ذریعہ رابطہ کر سکتے ہیں contact@vishvasnews.com
اس کے ساتھ ہی واٹس ایپ (نمبر9205270923 ) کے ذریعہ بھی اطلاع دے سکتے ہیں

Related Posts
Recent Posts