نئی دہلی (وشواس نیوز)۔ سوشل یڈیا پر ایک تصویر وائرل ہو رہی ہے، جسے لے کر دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ یہ اترپردیش میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ہوئے احتجاجی مظاہرے کی ہے۔ وشواس نیوز کی تفتیش میں یہ تصویر فرضی نکلی۔ وائرل کی جا رہی تصویر سی اے اے پاس ہونے سے کئی برس قبل کی ہے۔
فیس بک پیج ’بی جے پی‘ کی جانب سے 23 دسمبر کو ایک تصویر شیئر کی گئی ہے جس میں لکھا ہے، ’’رحمان چاچا 500 روپیے لے کر پتھر پھینکنے گئے تھے… یو پی پولیس نے انہیں 1,50,000 کا نوٹس بھیج دیا‘‘۔
فیس بک کے علاوہ سوشل میڈیا کے دیگر پلیٹ فارمس پر بھی اس تصویر کو ملتے جلتے دعوے کے ساتھ وائرل کیا جا رہا ہے۔
شہریت ترمیمی قانون کے اترپردیش سمیت ملک کی دیگر ریاستوں میں احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں۔ رورس امیج میں ہمیں یہ تصویر متعدد صارفین کی پروفائل پر ملی، جو تقریبا تین سال پرانی ہے۔
انڈیا ڈاٹ کام کی ویب سائٹ پر 11 جنوری 2016 کو شائع ہوئی خبر میں اس تصویر کا استعمال کیا گیا ہے۔ خبر کی سرخی ہے
Burning Bengal: Right-wingers on Twitter take Mamata Banerjee to task for downplaying Malda riots
یہ خبر مغربی بنگال کی ہے۔
مغربی بنگال کے مالدہ میں ہوئے فرقہ وارانہ تشدد کو لے کر سوشل میڈیا صارفین نے ممتا بنرجی پر جم کرنشانہ سادھا۔ حالاںکہ، وشواس نیوز اس تصویر کے مالدہ ہونے کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کرتا ہے۔ مغربی بنگال میں دینک جاگرن کے سینئر ایڈیٹر گوپال اوجھا نے کہا، ’’یہ تصویر مالدہ کی نہیں ہے‘‘۔
ٹن آئی ٹول کے ذریعہ کئے گئے رورس امیج سرچ میں بھی ہمیں یہ تصویر ملی، جسے سب سے پہلے 8 جنوری 2016 کو اپ لوڈ کیا گیا تھا۔ انڈیا ڈاٹ کام کی جس خبر میں اس تصویر کا استعمال کیا گیا ہے، وہ دسمبر 2016 کو لکھی گئی ہے، جب کہ شہریت ترمیمی بل 10 دسمبر 2019 کو لوک سبھا سے پاس ہونے کے بعد 11 دسمبر 2019 کو راجیہ سبھا سے بھی پاس ہوا۔ اس کے بعد صدر جمہوریہ کی منظوری ملی اور یہ بل قانون میں تبدیل ہو گیا۔
اس بل کے خلاف 10 دمسبر سے ملک بھر میں احتجاجی مظاہروں کا آغاز ہوا۔ انگریزی اخبار ’ٹائمس آف انڈیا‘ کی خبر کے مطابق، اتر پردیش میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف 21 دسمبر کو مظاہرہ ہوا تھا، جس کے بعد ہزاروں لوگوں کو حراست میں لیا گیا۔
نیوز ویب سائٹ ’انڈیا ٹوڈے‘ پر 21 دسمبر کو شائع ہوئی خبر میں اترپردیش میں ہوئے احتجاج کے ویڈیو کو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
ریاست بھر میں مظاہروں کے دوران عوامی املاک کو ہونے والے نقصان کی تلافی کے لئے، ریاستی حکومت نے ان مظاہرین کی جائیدادیں ضبط کرنا شروع کردی ہیں۔
نیوز رپورٹ کے مطابق، اترپردیش حکومت کا یہ فیصلہ 2010 کے الہ آباد ہائی کورٹ کے اس فیصل کے مطابق ہے، جس میں کورٹ نے کہا تھا کہ عوامی املاک کو نقصان پہنچانے والے لوگوں کی جائیدادیں ضبط کر اس کی بھرپائی کی جانی چاہئے۔
ہمارے ساتھی اخبار دینک جاگرن کے لکھنئو کے ریزیڈینٹ ایڈیٹر سدگرو شرن اوستھی نے کہا کہ یہ تصویر لکھئنو میں ہوئے احتجاجی مظاہرے کی نہیں ہے۔
شہریت ترمیمی قانون بننے اور پاس ہونے کے بعد سے سوشل میڈیا پر فرضی خبروں کا سیلاب آگیا ہے۔ ماحصل خراب کرنے کے مقصد سے فرضی ویڈیو اور تصاویر وائرل کی جا رہی ہیں۔ پرانی اور غیر متعلقہ تصاویر کو سی اے اے اور این آر سی کی مخالفت میں ہو رہے مظاہرے سے جوڑ کر وائرل کیا جا رہا ہے۔ وشواس نیوز نے متعدد ایسی خبروں کی پڑتال کی ہے جنہیں اسی ضمن میں اس سے قبل بھی وائرل کیا جا چکا ہے۔ ایسی تمام فرضی خبروں کی پڑتال کو یہاں پڑھا جا سکتا ہے۔
اب باری تھی اس پوسٹ کو فرضی حوالے کے ساتھ وائرل کرنے والے فیس بک پیج ’بی جے پی‘ کی سوشل اسکیننگ کرنے کی۔ ہم نے پایا کہ اس پیج سے ایک مخصوص آئڈیولاجی کی جانب متوجہ خبریں شیئر کی جاتی ہیں۔ علاوہ ازیں اس سے قبل بھی اس پیج پر فرضی پوسٹ شیئر کی جا چکی ہیں۔ وہیں 55,359 صارفین اس پیج کو فالوو کرتے ہیں۔ قابل غور ہے کہ یہ پیج سیاسی جماعت بی جے پی کا ویری فائڈ پیج نہیں ہے۔ بی جے پی کا ویری فائڈ پیج ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ (بی جے پی)‘ کے نام سے ہے۔
نتیجہ: شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ہوئے احتجاجی مظاہرے کے دعویٰ کے ساتھ جس مظاہر کی تصویر وائرل کو وائرل کی جا رہی ہے، وہ اترپردیش کی نہیں ہے۔
اگر آپ کو ایسی کسی بھی خبر پر شک ہے جس کا اثر آپ کے معاشرے اور ملک پر پڑ سکتا ہے تو ہمیں بتائیں۔ ہمیں یہاں جانکاری بھیج سکتے ہیں۔ آپ ہم سے ای میل کے ذریعہ رابطہ کر سکتے ہیں contact@vishvasnews.com
اس کے ساتھ ہی واٹس ایپ (نمبر9205270923 ) کے ذریعہ بھی اطلاع دے سکتے ہیں