فیکٹ چیک: 10 ہزار سم کارڈ نہیں تھے ایک شخص کے نام سے رجسٹرڈ، دو سال پرانا معاملہ فرقہ وارانہ دعوی کے ساتھ وائرل

وشواس نیوز نے اپنی پڑتال میں پایا کہ 2018 میں جھارکھنڈ میں پیش آئے ایک معاملہ کو فرضی حوالے ساتھ وائرل کیا جا رہا ہے۔ سم کارڈ ایک شخص نہیں بلک ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی کے نام سے تھے اور کچھ کمپیوں کے پرموشن کے مقصد سے خریدے گئے تھے، وائرل کیا جا رہا دعوی پوری طرح غلط ہے۔

نئی دہلی (وشواس نیوز)۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہوئے ایک ویڈیو کے ذریعہ یہ دعوی کیا جا رہا ہے کہ جاوید نام کے شخص کو جھارکھنڈ اے ٹی ایس نے 10 ہزار سم کارڈ کے ساتھ پکڑا ہے اور یہ شخص فیس بک، ٹویٹر اور واٹس ایپ پر براہمن اور دلت کے نام سے فیک آئی ڈی چلاتا تھا۔

وشواس نیوز نے اپنی پڑتال میں وائرل دعوی فرضی پایا۔ سال 2018 میں جھارکھنڈ اے ٹی ایس نے تین لوگوں کو حراست میں لیا تھا، ابتدائی معلومات میں پتہ چلا تھا کہ جاوید نام کے شخص کے نام پر 10 ہزار سم کارڈ رجسٹرڈ ہیں، حالاںکہ تفتیش میں یہ واضح ہو گیا تھا کہ کسی ایک شخص کے نہیں بلکہ ایک ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی سے یہ تمام سم رجسٹرڈ تھے اور کچھ کمپنیوں کے پرموشن کے مقصد سے خریدے گئے تھے۔ اے ٹی ایس جھارکھنڈ کے ایس پی نے بھی وائرل پوسٹ کو فرضی بتایا۔

کیا ہے وائرل پوسٹ میں؟

ٹویٹر صارف پنکج راجپوت نے ایک ویڈیو ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا، ’’ایلرٹ’ 10000 ہزار سم کارڈ ایک جاوید کے نام۔ دیکھیں کیسے یہ ہزاروں کی فیک آئی ڈی بنا کر فیس بک اور واٹس ایپ ٹویٹر پر جہاد کرتے ہیں دلت بن کر براہمن کو گالی دیتے ہیں اور براہمن بن کر دلت کو راجپوت بن کر یادو کو گالی دیتے ہیں یعنی ایک ہندووں میں پھوٹ ڈالو‘‘۔ ویڈیو میں شخص کو کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے، ’10ہزار سم کے ساتھ ایک شخص پکڑا گیا ہے، ممکن ہےکہ وہ کسی جہاد کا بھی موومینٹ ہو سکتا ہے۔ اے ٹی ایس اس کی پڑتال کر رہی ہے…‘‘۔

پوسٹ کے آرکائیو ورژن کو یہاں دیکھیں۔

پڑتال

اپنی تفتیش کا آغاز کرتے ہوئے سب سے پہلے ہم نے متعدد کی ورڈس کے ذریع گوگل اوپن سرچ کیا۔ اور سرچ میں ہمارے ہاتھ 24 اکتوبر 2018 کو شائع ہوئی ’دا ٹیلی گراف آن لائن‘ کی ایک خبر لگی، جس میں بتایا گیا کہ ’’جھارکھنڈ کے رانچی میں اے ٹی ایس ( اینٹی ٹیرر اسکویڈ) کی ٹیم نے دو گھروں سے 10 ہزار سم کارڈس اور کچھ سم باکسز برآمد کئے ہیں۔ یہ تمام سم کارڈ دہلی کے رہنے والے جاوید احمد کے نام پر رجسٹرڈ ہیں۔ اور اسی کے تحت پولیس نے تین لوگوں کو ہراست میں لیا ہے۔ معاملہ کی تفصیلی جانچ جاری ہے‘‘۔ مکمل خبر یہاں پڑھیں۔

دا آن لائن ٹیلی گراف میں دوسرے ہی دن یعنی 25 اکتوبر 2018 کو کو شائع ہوئی اسی کے اپڈیٹڈ خبر میں اے ٹی ایس جھارکھنڈ کے حوالے سے بتایا گیا کہ،’10 ہزار سم کارڈ کسی ایک شخص کے نام سے نہیں بلکہ ’اوون ایکسل ‘ نام کی کمپنی سے رجسٹرڈ تھے۔ خبر میں معاملہ کی قیادت کر رہے اے ٹی ایس کے ایس پی ، پی موروگن کے حوالے سے بتایا، ’ اوون ایکسل کمپنی ٹیلیکام ریگولیٹری اتھورٹی آف انڈیا( ٹی آر اے آئی) کے اندر رجسٹرڈ ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے واضح کیا کہ ٹی آر اے آئی سے رجسٹرڈ اس کمپنی کو ایئرٹیل کارپوریٹ یوزر پلان کے تحت سم کارڈ ایشو کئے گئے تھے۔ ٹی آر اے آئی کے ہدایات کے مطابق ایک شخص اپنے نام پر نو سم کارڈس کے زیادہ نہیں لے سکتا حالاںکہ کمپنیوں کو اس سے زیادہ لینے کی اجازت ہوتی ہے۔ ایس پی موروگن کے حوالے سے خبر میں مزید بتایا گیا کہ اب تک کی تفتیش میں کمپنی یا اس کی ایکٹیویٹیز سے کوئی بھی مشتبہ چیز نہیں ملی ہے۔ مکمل خبر کو یہاں پڑھیں۔

مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے وشواس نیوز نے ہمارے ساتھی دینک جاگرن کے جھارکھنڈ یونٹ کے سینئر ایڈیٹر آر پی این مشرا سے رابطہ کیا اور ان کے ساتھ وائرل پوسٹ شیئر کی جس پر انہوں نے ہمیں بتایا کہ، ’یہ معاملہ 2018 کا ہے جب پولیس کو معلومات ملی تھی کہ ایک جگہ کچھ لوگ سم کے ساتھ کچھ خفیہ کام کر رہے ہیں۔ تبھی رات کے وقت پولیس نے چھاپہ مارا تھا۔ لیکن بعد کی تفتیش میں پتہ چلا تھا کہ یہ ایک کمپنی کے لئے کام کر رہے تھے جو کمپنی رجسرٹڈ تھی۔ یہ کمپنی کئی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتی تھی، وہ کمپنیوں کے پروموشن کے بلک میسجز بھیجتی تھی۔ جب یہ معاملہ ہوا اس وقت کافی افواہیں بھی اڑی تھی لیکن پولیس کی تفتیش میں یہ صاف ہو گیا تھا کہ یہ سب ایک کمپنی کے لوگ تھے نہ کی مشتبہ افراد‘‘۔

وشواس نیوز نے جھارکھنڈ اے ٹی ایس، ایس پی انجنی انجن سے بھی رابطہ کیا اور ان کے ساتھ وائرل پوسٹ شیئر کی۔انہوں نے تصدیق دیتے ہوئے بتایا کہ یہ معاملہ 2018 کا ہے۔ اس معاملہ میں کوئی کیس درج نہیں ہوا تھا کیوں کہ ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ اور اب اس معاملہ کو جس حوالے کے ساتھ وائرل کیا جا رہا ہے وہ فرضی ہے۔

پوسٹ کے ساتھ وائرل کئے جا رہا ویڈیو ہمیں نتن شکلا نام کے آفشیئل یوٹیوب پیج پر ملا۔ کل 6 منٹ 32 سیکنڈ کے اسی ویڈیو کی 45 سیکنڈ کی کلپ کو وائرل کیا جا رہا ہے۔ ویڈیو کو دا ٹیلی گراف میں 24 اکتوبر 2018 کو شائع ہوئی خبر کی بنیاد پر بنایا گیا ہے۔ حالاںکہ خبر کی اپڈیٹس اور بعد میں جاری ہوئے پولیس کے بیان کو ویڈیو میں نہیں دکھایا گیا ہے، جبکہ ویڈیو 29 اکتوبر 2018 کو اپڈیٹ کیا گیا ہے اور تب تک پولیس کی جانب سے تمام

پوسٹ کو فرضی دعوی کے ساتھ شیئر کرنے والے ٹویٹر صارف ’پنکج راجپوت‘ کی سوشل اسکیننگ میں ہم نے پایا کہ صارف کو 1591 صارفین فالوو کرتے ہیں۔علاوہ ازیں اس پروفائل سے ایک مخصوص آئیولاجی کی جانب متوجہ ٹویٹ کئے جاتے ہیں۔

نتیجہ: وشواس نیوز نے اپنی پڑتال میں پایا کہ 2018 میں جھارکھنڈ میں پیش آئے ایک معاملہ کو فرضی حوالے ساتھ وائرل کیا جا رہا ہے۔ سم کارڈ ایک شخص نہیں بلک ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی کے نام سے تھے اور کچھ کمپیوں کے پرموشن کے مقصد سے خریدے گئے تھے، وائرل کیا جا رہا دعوی پوری طرح غلط ہے۔

False
Symbols that define nature of fake news
مکمل سچ جانیں...

اگر آپ کو ایسی کسی بھی خبر پر شک ہے جس کا اثر آپ کے معاشرے اور ملک پر پڑ سکتا ہے تو ہمیں بتائیں۔ ہمیں یہاں جانکاری بھیج سکتے ہیں۔ آپ ہم سے ای میل کے ذریعہ رابطہ کر سکتے ہیں contact@vishvasnews.com
اس کے ساتھ ہی واٹس ایپ (نمبر9205270923 ) کے ذریعہ بھی اطلاع دے سکتے ہیں

Related Posts
Recent Posts