فیکٹ چیک: شام اور افغانستان کی پرانی تصویر ہوئی کشمیر کے نام پر وائرل

نئی دہلی (وشواس نیوز)۔ کشمیر کے نازک حالات کو دیکھتے ہوئے سوشل میڈیا پر فرضی ویڈیوز اور تصاویر وائرل ہو رہی ہیں۔ کشمیر کے نام سے دیگر ریاستوں اور دیگر مملک کی تصاویر اور ویڈیوز کو وائرل کیا جا رہا ہے۔ اسی طرز میں ہمارے ہاتھ دو تصاویر لگیں جو کشمیر کے نام سے فیس بک پر وائرل ہو رہی ہیں۔ تصویر میں دو زخمی بچوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ یہ تصویر کشمیر کی ہے، وشواس ٹیم کی پڑتال میں یہ دعویٰ فرضی ثابت ہوتا ہے۔ پوسٹ میں دائیں جانب نظر آرہی لڑکی کی تصویر افغانستان کی ہے وہیں بائیں جانب نظر آرہے لڑکے کی تصویر شام کی ہے۔

کیا ہے وائرل پوسٹ میں؟

فیس بک پیج ’شبینا خان‘ کی جانب سے 31 اگست کو ایک پوسٹ شیئر کی جاتی ہے جس میں دو بچوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔ دائیں جانب ایک لڑکی کی ایک تصویر ہے اور بائیں جانب کے لڑکے کی تصویر ہے۔ دونوں بچے شدید طور پر زخمی نظر آرہے ہیں۔ اس پوسٹ کے ساتھ کیپشن لکھا ہے: ’’کشمیریوں کے لئے آواز اٹھانے کے لئے مسلمان ہونا ضروری نہیں
آپ کا انسان ہونا ہی کافی ہے، 26واں دن بھوک، پیاس اور موت‘‘۔

اس پوسٹ کو اب تک 3 ہزار لوگوں نے شیئر کیا ہے۔ وہیں 551 لوگ اسے لائک کر چکے ہیں۔

پڑتال

وشواس ٹیم نے دونوں تصاویر کو الگ- الگ کر کے ان کی تفتیش کرنے کا فیصلہ کیا۔ سب سے پہلے وشواس ٹیم نے دائیں جانب نظر آرہی لڑکی کی تصویر کو کراپ کیا اور اس کا گوگل رورس امیج سرچ کیا۔ سرچ کرتے ہوئے ’ہزارہ‘ کی ورڈ خود بہ خود سلیکٹ ہو گیا۔ ہمارے ہاتھ متعدد ایسی خبروں کے لنک لگے جس میں اس تصویر کا استعمال کیا گیا تھا۔ اور ان تمام لنک میں اس تصویر کو افغانستان کا بتایا گیا۔

دئے گئے ایک لنک’ہزارہ پیپل ڈاٹ کام‘ پر ہم گئے ۔ اس میں بھی اس تصویر کا استعمال کیا گیا تھا۔ اس خبر کو 13 دسمبر 2011 میں شائع کیا گیا تھا اور اس کی سرخی تھی
”Erroneous views on Afghanistan and the Hazaras by Pakistani writer”
جس کا اردو میں کچھ اس طرح ترجمہ ہوتا ہے: ’’ افغانستان اور ہزارہ کے بارے میں پاکستانی مصنف کے غلط خیالات‘‘۔

اب ہمیں یہ جاننا تھا کہ اگر یہ تصویر افغانستان کی ہے تو کس موقع کی ہے۔ ہماری تفتیش میں ہمارے ہاتھ ’بڈقول‘ نام کا ایک بلاگ لگا جس میں بھی اس تصویر کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس بلاگ کو 24 دسمبر 2011 کو شائع کیا گیا تھا۔

دیگر زبان (فارسی) میں ہونے کی وجہ سے ہم نے گوگل ٹرانسلیٹ کی مدد سے اس کی سرخی اور لڑکی کی تصویر کے نیچے لکھی گئی لائن کا اردو میں ترجمہ کیا۔ جس کے بعد ہمیں معلوم ہوا کہ اس کی سرخی ہے’’ کابل میں یوم عاشور کے دھماکوں کی تصاویر‘‘۔ وہیں بچی کی تصویر کے نیچے لکھا ہے’’یزیدیان کسی پر رحم نہیں کرتا، یہ ایک ایسی نوجوان لڑکی کا معاملہ ہے جس کا کان کٹ گیا ہے‘‘۔

اب یہ تو واضح ہو چکا تھا کہ یہ تصویر کشمیر کی نہیں بلکہ دسمبر 2011 میں افغانسان کے کابل میں ہوئے دھماکہ کی ہے۔ اپنی خبر کو پختہ کرنے کے لئے ہم نے نیوز سرچ کیا اور ہمیں این وائی ٹائیمس کی ایک خبر ملی جسے 6 دسمبر 2011 کو شائع کیا گیا تھا۔ خبر کے مطابق ’’کابل میں فرقہ وارانہ حملہ ہوا جس میں شیعہ مسلمانوں کو اپنا نشانہ بنایا گیا ہے‘‘۔

اب باری تھی وائرل پوسٹ میں دی گئی دوسری تصویر کی حقیقت جاننے کی۔ بائیں جانب دی گئی تصویر میں ایک لڑکا نظر آرہا ہے۔ اس تصویر کو ہم نے کراپ کیا اور رورس امیج سرچ کیا۔ سرچ میں ہمارے ہاتھ 22 دسمبر 2018 کو ’اسکائی نیوز عربیہ ڈاٹ کام‘ نام کی ایک ویب سائٹ کا لنک لگا۔ اس خبر میں اسی تصویر کو دیکھا جا سکتا ہے جسے کشمیر کے نام سے وائرل کیا جا رہا ہے۔

اس خبر کی سرخی اور ذیلی سرخی کا ہم نے گوگل ٹرانسلیٹ کی مدد سے ترجمہ کیا جس کے بعد اس کی سرخی تھی، ’’”غوطہ کا قتل عام” .. اسپتالوں کے بغیر ہلاک ، بھوک اور زخمی‘‘۔ وہیں اس کی ذہی سرخی تھی، ’’اسپتالوں میں ہجوم بہت زیادہ ہے۔‘‘۔

خبر میں دی گئی تصویر کے کریڈٹ میں ’گیٹی امیجز‘‘ کا نام لکھا ہوا ہم نے دیکھا۔ اب باری تھی اس خبر کو گیٹی امیجز پر تلاش کرنے کی۔ تھوڑی سی جدو جہد کے بعد ہی ہمارے ہاتھ گیٹی امیجز کی یہ تصویر لگی۔

گیٹی امیجز میں دی گئی تصویر کی تفصیل کے مطابق ’یہ تصویر فوٹوگرافر عامر المیبری نے 21 فروری 2018 میں شام کے غوطہ میں ہوئے حملہ کے بعد کھینچی ہے‘۔ اس تصویر کو سیرئن کنفلکٹ یعنی ’شامی تنازعہ میں رکھا گیا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ تصویر شام کی ہے۔

دونوں ہی تصاویر کی اصل حقیقت جاننے کے بعد ہم نے مزید تصدیق کے لئے ہم نے دینک جاگرن کے جموں و کشمیر کے سینئر رپورٹر راہل شرما سے رابطہ کیا۔ اور انہوں نے ہمیں بتایا کہ ’’صاف نظر آرہا ہے کہ یہ کسی بم دھماکہ کی تصویر ہے اور یہاں گزشتہ ایک ماہ سے ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ہے۔ یہ تصویر کشمیر کی نہیں ہے‘‘۔

اب باری تھی اس پوسٹ کو وائرل کرنے والی شبینہ خان کی سوشل اسکیننگ کرنے کی۔ ہم نے پایا کہ انہوں نے اپنے آپ کو سماجی کارکن کے طور پر بتایا ہوا ہے اور ساتھ ہی ان کی پروفائل سے متعدد فرضی خبریں بھی پوسٹ کی جاتی ہیں۔ اس پیج کو کل 9,334  لوگ فالوو کرتےہیں۔

کشمیر کے حالات کے مد نظر سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کا بھی ایک فرضی ٹویٹ وائرل ہو رہا ہے۔ اس ٹویٹ میں بھی وہی لکھا گیا ہے جو کشمیر کے نام سے ان بچوں کے ساتھ کیپن میں ہے۔ وشواس ٹیم نے منموہن سنگھ کے نام سے وائرل ہو رہے فرضی ٹویٹ کی پڑتال کی اور اس کا پردہ فاش کیا۔ ہماری پوری خبر آپ یہاں پڑھ سکتے ہیں۔

نتیجہ: کشمیر کے نام سے وائرل ہو رہی تصویر فرضی ہے۔ دائیں جانب نظر آرہی لڑکی کی تصویر دسمبر 2011 میں افغانستان میں ہوئے دھماکہ کی ہے، وہیں بائیں جانب نظر آرہے لڑکے کی تصویر فروری 2018 میں شام کے غوطہ میں ہوئے حملہ کی ہے۔ دونوں ہی تصاویر پرانی ہیں اور ان کا کشمیر سے کوئی لینا- دینا نہیں ہے۔

مکمل سچ جانیں…سب کو بتائیں

اگر آپ کو ایسی کسی بھی خبر پر شک ہے جس کا اثر آپ کے معاشرے اور ملک پر پڑ سکتا ہے تو ہمیں بتائیں۔ ہمیں یہاں جانکاری بھیج سکتے ہیں۔ آپ ہم سے ای میل کے ذریعہ رابطہ کر سکتے ہیں
contact@vishvasnews.com 
اس کے ساتھ ہی واٹس ایپ (نمبر9205270923 ) کے ذریعہ بھی اطلاع دے سکتے ہیں۔


False
Symbols that define nature of fake news
Related Posts
Recent Posts