فیکٹ چیک: شاملی میں بےرحمی سے ہوئی لڑکوں کی پٹائی کا ویڈیو ہندو۔ مسلم زاویہ کے ساتھ وائرل

وشواس نیوز نے اپنی پڑتال میں پایا کہ وائرل ویڈیو کے ساتھ جو دعوی کیا جا رہا ہے وہ غلط ہے۔ ویڈیو میں مار کھا رہے لڑکے اور مارنے والے لوگ ایک ہی برادری سے تعلق رکھتے ہیں، اس معاملہ کاکوئی فرقہ وارانہ اینگل نہیں ہے۔

نئی دہلی (وشواس نیوز)۔ سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو تیزی سے وائرل ہو رہا ہے۔ ویڈیو میں کچھ لوگوں کو دو لڑکوں کو بےحرمی سے پیٹتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ کچھ لوگ نوجوان کے پیر ہاتھ پکڑ کر پلنگ پر لیٹا کر پٹائی میں مدد دیتے ہوئے بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ وہیں ایک خاتون کو بھی ہاتھ میں ڈنڈا لئے نوجوانوں کو مارتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ اب اسی ویڈیو کو ہندو۔ مسلم کے زاویہ کے ساتھ شیئر کیا جا رہا ہے۔ صارفین دعوی کر رہے ہیں کہ دو مسلم لڑکیوں کے ساتھ ان دونوں ہندو لڑکوں کو پکڑا گیا اور اس کے بعد ان کی اس طرح پٹائی کی گئی ہے۔ وشواس نیوز نے اپنی پڑتالمیں پایا کہ وائرل ویڈیو کے ساتھ جو دعوی کیا جا رہا ہے وہ غلط ہے۔ ویڈیو میں مار کھا رہے لڑکے اور مارنے والے لوگ ایک ہی برادری سے تعلق رکھتے ہیں، اس معاملہ کاکوئی فرقہ وارانہ اینگل نہیں ہے۔

کیا ہے وائرل پوسٹ میں؟

فیس بک صارف، ’بی تلسی‘ نے ویڈیو کو شیئر کرتے ہوئے لکھا، ’دو مسلم لڑکی ہندوس لڑکوں کے ساتھ دیکھی جانے کے بعد کیا حال کرے گاؤں والے‘‘۔

پوسٹ کے آرکائیو ورژن کو یہاں دیکھیں۔

پڑتال

اپنی پڑتال کو شروع کرتے ہوئے سب سے پہلے ہم نے ویڈیو کو ان ویڈ ٹول میں ڈالا اور اس کے متعدد کی فریمس نکال کر انہیں گوگل رورس امیج کے ذریعہ سرچ کیا۔ سرچ میں ہمیں اسی ویڈیو سے جڑی دینک جاگرن کی ویب سائٹ پر ایک خبر ملی۔ خبر میں دی گئی معلومات کے مطابق ،’انٹرنیٹ پر کیرانا علاقہ کے گاؤں تترواڑہ میں کچھ لوگوں کے ذریعہ ایک خاتون اور دو نوجوانوں کی پٹائی کا ویڈیو وائرل ہورہا ہے۔پولیس نے معاملہ معلومات میں آتے ہی مقدمہ درج کر لیا۔ کوتوالی انچارج پریمویر سنگھ رانا کا کہنا ہے کہ پٹائی اور وائرل ویڈیو کے معاملہ میں پولیس کی جانچ میں یہ پتہ چلا کہ یہ ویڈیو تترواڑہ گاؤں کی ہے۔ معاملہ پیار محبت کا نظرآرہاہے۔ مکمل خبر یہاں پڑھیں۔

اسی طرز میں ہم نے سرچ کرنا شروع کیا اور ہمیں شاملی کے ایس پی کا ویڈیو بھی ایک ٹویٹ میں ملا۔ ویڈیو میں انہیں یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے، ’سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہو رہا ہے وہ ہماری جانکاری میں آیا ہے۔ اس ویڈیو کی جانچ کرتے وقت یہ پتہ چلا کہ شاملی کے ایک گاؤں میں ایک شخص جس کا نام احسان علی کی شادی ہوئی تھی۔ اور جن سے ان کی شادی ہوئی تھی وہی ویڈیو میں دکھ رہی ہیں۔ اور ان کا شادی سے قبل محبت کا تعلق تھا اور اسی طرز میں ایک شخص ان کے سسرال آیا تھا اور وہ اپنے دوست کے ساتھ آیا تھا۔ یہ بات جب ان کے سسرال والوں کو پتہ چلی تو ان لڑکوں کو روک لیا گیا اور لڑکی کے مائکے کو بتایا گیا۔ مائکے اور سسرال کے لوگوں نے مل کر ان لڑکوں کی پٹائی کی۔ اس معاملہ سے متعلق پولیس کو کوئی درخواست نہیں کی گئی۔ جو ویڈیو وائرل ہوا ہے وہ آج پولیس کی جانکاری میں آیا ہے اور اس کی فوری طورپر جانچ کر کے پولیس کے ذریعہ مقدمہ درج کیا جا چکا ہے‘‘۔ مکمل ویڈیو یہاں ٹویٹ میں دیکھیں۔

پڑتال کے آخری مرحل میں وشواس نیوز نے شاملی کے کیرانا پولیس اسٹیشن کے انچارج پرمویر سنگھ سے رابطہ کیا اور انہوں نے ہمیں بتایا کہ، ’اس معاملہ میں کوئی ہندو۔ مسلم زاویہ نہیں ہے۔ جن لڑکوں کی پٹائی ہوئی اور جن لوگوں نے مارا دونوں ہی مسلمان ہیں۔ انہوں نے معاملہ کی تفصیل دیتے ہوئے کہا کہ، لڑکی کی شادی ہو چکی تھی اور اس کا سابق عاشق اس سے ملنے آیا تھا اسی کے بعد لڑکی کے مائکے اور سسرال والوں نے ان لڑکوں کی پٹائی کی۔ اس کے علاوہ مقدمہ درج بھی ہو چکا ہے اور چار لوگوں کی گرفتاریاں بھی ہوئی ہیں‘‘۔

پوسٹ کو فرضی دعوی کے ساتھ وائرل کرنے والی فیس بک صارف بی تلسی کی سوشل اسکیننگ میں ہم نے پایا کہ صار نے اپریل 2016 میں فیس بک جوائن کیا ہے۔ اور اس سے پہلے بھی اس پروفائل سے فرضی پوسٹ شیئر کی جا چکی ہے۔

نتیجہ: وشواس نیوز نے اپنی پڑتال میں پایا کہ وائرل ویڈیو کے ساتھ جو دعوی کیا جا رہا ہے وہ غلط ہے۔ ویڈیو میں مار کھا رہے لڑکے اور مارنے والے لوگ ایک ہی برادری سے تعلق رکھتے ہیں، اس معاملہ کاکوئی فرقہ وارانہ اینگل نہیں ہے۔

False
Symbols that define nature of fake news
مکمل سچ جانیں...

اگر آپ کو ایسی کسی بھی خبر پر شک ہے جس کا اثر آپ کے معاشرے اور ملک پر پڑ سکتا ہے تو ہمیں بتائیں۔ ہمیں یہاں جانکاری بھیج سکتے ہیں۔ آپ ہم سے ای میل کے ذریعہ رابطہ کر سکتے ہیں contact@vishvasnews.com
اس کے ساتھ ہی واٹس ایپ (نمبر9205270923 ) کے ذریعہ بھی اطلاع دے سکتے ہیں

Related Posts
Recent Posts