فیکٹ چیک: یہ تصویر جے این یو میں جاری مظاہرے کی نہیں، بلکہ دہلی کے پرانے احتجاج کی ہے

نئی دہلی (وشواس نیوز)۔ اضافی فیس کے تحت چل رہے جے این یو کے مظاہرے سے متعلق متعدد فرضی تصاویر پھیلائی جا رہی ہیں۔ اسی ضمن میں وشواس نیوز نے پایا کہ ایک تصویر وائرل ہو رہی ہے جس میں ایک خاتون کو کچھ خواتین پولیس اہلکار جبرا بس میں داخل کرتی نظر آرہی ہیں۔ صارفین کا دعویٰ ہے کہ یہ جے این یو کی بی اے فرسٹ ایئر کی طالبہ ہیں اور یہ جواہر لال یونی ورسٹی میں چل رہے مظاہرہ کی تصویر ہے۔ وشواس نیوز نے دعویٰ کی پڑتال کی اور پایا کہ یہ تصویر جے این یو احتجاج کی نہیں بلکہ رواں ماہ مئی میں عدالت اعظمی کے باہر جسٹس رنجن گوگوئی کے خلاف ہوئے احتجاج میں شامل خاتون کی تصویر ہے۔

کیا ہے وائرل پوسٹ میں

فیس بک صارف سشیل کمار پاراشر نے ایک تصویر شیئر کی جس کے ساتھ انہوں نے کیپشن میں لکھا، ’’فیس بڑھانے کو لے کر مظاہرہ کے ساتھ گرفتاری دیتی، جے این یو طالبہ ’لاج ونتی تائی‘‘ بی اے فرسٹ ایئر۔ رول نمبر 69‘‘۔

پڑتال

وشواس نیوز نے سب سے پہلے وائرل تصویر کا رورس امیج سرچ کیا۔ سرچ کرتے ہی ہمارے ہاتھ رواں سال مئی کی متعدد خبروں کے لنک لگے۔

موجودہ لنک میں ہم بلوم برگ کوینٹ کی ویب سائٹ پر گئے جہاں اس تصویر کا استعمال کیا گیا تھا۔ 10 مئی 2019 کو شائع خبر کی سرخی ہے
CJI Row: Delhi Police Detains Protesters Third Day in A Row
خبر میں بتایا گیا کہ، ’’جسٹسٹ رنجن گوگوئی کے خلاف جنسی حراسانی کے معاملہ میں کلین چٹ کے خلاف سپریم کورٹ کے باہر مظاہرہ کیا گیا۔ احتجاجی مظاہرہ میں خواتین وکلاء اور سماجی کارکن شامل رہیں۔ خبر میں مزید بتایا گیا کہ احتجاج درج کرانے والی تقریبا 100 خواتین کو پولیس نے حراست میں لیا‘‘۔

خبر میں دی گئی تصویر کے فوٹو کریڈٹ میں ہمیں پی ٹی آئی کا نام نظر آیا۔ بتا دیں کہ پی ٹی آئی ہندوستان کی خبر رساں ایجنسی ہے۔ ہم نے مزید پڑتال کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ یہ تصویر کی پی ٹی آئی کے کس فوٹوگرافر نے کھینچا ہے۔ تفتیش کے دوران ہمارے ہاتھ آوٹ لک انڈیا کی فوٹو گیلری لگی جس میں وائرل تصویر کے ساتھ پی ٹی آئی کے فوٹو گرافر کا نام بھی ملا۔

اب ہم نے اس تصویر کو کھینچنے والے پی ٹی آئی کے فوٹوگرافر روی چودھری سے رابطہ کیا اور ان کے ساتھ تصویر اور اس کے ساتھ کیا جا رہا دعویٰ شیئر کیا جس کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ، ’’یہ تصویر مئی کی ہے جب سپریم کورٹ کے باہر خواتین وکلاء اور سماجی کارکن نے احتجاجی مظاہرہ کیا تھا۔ اس تصویر کا آج کل ہو رہے جے این یو مظاہرے سے کوئی تعلق نہیں ہے‘‘۔

ہم نے اپنی پڑتال میں پایا تصویر میں نظر آرہی خاتون سابق رکن پارلیمنٹ اور سی پی آئی کے سابق نیشنل سکریٹری ڈی راجہ کی بیوی ہیں۔ علاوہ ازیں اینی راجہ کے ٹویٹر ہینڈل سے ہمیں معلوم ہوا کہ وہ این ایف آئی ڈبلو (نیشنل فڈریشن آف انڈین وومین)کی جنرل سکریٹری ہیں۔ ان کی پروفائل پر ہمیں 7 مئی کو کیا گیا ایک ٹویٹ ملا جس میں ہمیں وہی تصویر ملی جسے اب فرضی حوالے کے ساتھ وائرل کیا جا رہا ہے۔

اب باری تھی اس پوسٹ کو فرضی حوالے کے ساتھ وائرل کرنے والے فیس بک صارف کی سوشل اسکیننگ کرنے کی۔ ہم نے پایا کہ اس صارف کا تعلق چنڈی گڑھ سے ہے اس صارف کو 1,490 لوگ فالوو کرتے ہیں۔

نتیجہ: وشواس نیوز نے اپنی پڑتال میں پایا کہ جے این یو طالبہ کے نام سے جس تصویر کو وائرل کیا جا رہا ہے دراصل وہ سپریم کورٹ کے باہر ہوئے مظاہرہ میں شامل خاتون کی تصویر ہے۔ تصویر مئی 2019 کی ہے اور اس کا جے این یو کے حالیہ مظارہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

مکمل سچ جانیں...

اگر آپ کو ایسی کسی بھی خبر پر شک ہے جس کا اثر آپ کے معاشرے اور ملک پر پڑ سکتا ہے تو ہمیں بتائیں۔ ہمیں یہاں جانکاری بھیج سکتے ہیں۔ آپ ہم سے ای میل کے ذریعہ رابطہ کر سکتے ہیں contact@vishvasnews.com
اس کے ساتھ ہی واٹس ایپ (نمبر9205270923 ) کے ذریعہ بھی اطلاع دے سکتے ہیں

Related Posts
Recent Posts