نئی دہلی (وشواس ٹیم)۔ سوشل میڈیا پر ایک خاتون کی تصویر وائرل ہو رہی ہے۔ اس کے بار میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ خاتون راجستھان کے ریگستان میں پہرا دیتی ہندوستانی جوان ہے۔ وشواس ٹیم کی پڑتال میں یہ پوسٹ فرضی ثابت ہوئی۔ وائرل پوسٹ میں نظر آرہی خاتون کا نام آسیہ رمضان ہے۔ یہ ایک کرد خاتون جوان تھی۔ اس کی شام میں دہشت گردوں سے لڑتے ہوئے 30 اگست 2016 میں موت ہو چکی ہے۔
فیس بک صارف پریتی شرما نے ایک خاتون جوان کی تصویر کو اپ لوڈ کرتے ہوئے لکھا: ’’راجستھان کے تپتے ریگستان میں پہرا دیتی ہندوستانی جوان۔ رک کیوں گئے۔ اب بولو جے ہند‘‘۔
یہ تصویر نہ صرف فیس بک، بلکہ ٹویٹر اور واٹس ایپ کے ذریعہ لوگوں کے موبائل تک پھیل گئی ہے۔
وشواس ٹیم نے سب سے پہلے وائرل تصویر کو گوگل رورس امیج میں اپ لوڈ کرتے ہوئے سرچ کیا۔ ہمارے سامنے گوگل کے کئی پیج کھل گئے۔ متعلقہ سرچ میں عاسیہ رمضان نام سجسٹ ٹیا گیا۔ دنیا بھر کی متعدد ویب سائٹ پر ایک تصویر موجود ہے۔
اس کے بعد ہم عاسیہ کے ویکی پیڈیا پیج پر گئے۔ یہاں سے ہمیں جانکاری ملی کہ 30 اگست 2016 کو دہشت گردوں سے لڑتے ہوئے عاسیہ کی موت ہو گئی تھی۔ وہ ایک کردش فائٹر تھی۔
اپنی پڑتال کو آگے بڑھاتے ہوئے ہم نے ایک بار پھر وائرل تصویر کو گوگل رورس امیج میں سرچ کیا۔ ہمیں برطانیہ کی ویب سائٹ دا سن ڈاٹ کو ڈاٹ یو کے (نیچے ویب سائٹ کا لنک دیکھیں) پر ایک خبر ملی۔ اس خبر میں وائرل فوٹو کا استعمال کیا گیا تھا۔ تصویر البرٹو ہوگو روجس (نیچے انگریزی میں دیکھیں) نے کھینچی تھی۔ یہ آپ فوٹو کے نیچے دیکھ سکتے ہیں۔
thesun.co.uk , Alberto Hugo Rojas
خبر میں تفصیل سے آسیہ کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ خبر کے مطابق، ترکی سے ملی ہوئی شام کی سرحد پر آئی ایس آئی ایس کے دہشت گردوں سے لڑتے ہوئے آسیہ کی موت ہو گئی تھی۔ سال 2014 میں یہ دہشت گردوں سے لڑ رہی تھی۔ یہ خبر آپ ایران کی ویب سائٹ آئی ایف پی نیوز ڈاٹ کام (نیچے ویب سائٹ کا لنک دیکھیں) پر بھی پڑھ سکتے ہیں۔
ifpnews.com
بالآخر یہ واضح ہو گیا کہ ہندوستانی جوان کے نام پر ایک کردش خاتون کی تصویر وائرل ہو رہی ہے۔ اس کے بعد ہم نے بی ایس ایف کے پبلک رلیشن افیسر (پی آر او) شبھیندرو بھاردواج سے رابطہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ وائرل ہو رہی پوسٹ میں دکھ رہی خاتون کا بی ایس ایف سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اس کے بعد ہم نے فرضی پوسٹ کرنے والے فیس بک پیج کی سوشل اسکیننگ کی۔ اسٹاک اسکین (نیچے انگریزی میں دیکھیں) ٹول سے ہمیں پتہ چلا کہ پریتی سنہا نام کے اس فیس بک پیج کو 27 مارچ 2019 میں بنایا گیا ہے۔ اس پیج کو 18 ہزار سے زیادہ لوگ فالو کرتے ہیں۔ اس پیج پر نامعلوم لڑکیوں کی تصاویر کو غلط حوالے کے ساتھ پوسٹ کیا جاتا ہے۔
Stalkscan
نتیجہ: وشواس ٹیم کی پڑتال میں پتہ چلا کہ وائرل پوسٹ میں دکھ رہی خاتون کا ہندوستانی فوج سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ ایک کردش فائٹر تھی۔ اس کا نام آسیہ رمضان تھا۔ اور اس کی 2016 میں ہی موت ہو چکی ہے۔
اگر آپ کو ایسی کسی بھی خبر پر شک ہے جس کا اثر آپ کے معاشرے اور ملک پر پڑ سکتا ہے تو ہمیں بتائیں۔ ہمیں یہاں جانکاری بھیج سکتے ہیں۔ آپ ہم سے ای میل کے ذریعہ رابطہ کر سکتے ہیں
contact@vishvasnews.com
اس کے ساتھ ہی واٹس ایپ (نمبر9205270923 ) کے ذریعہ بھی اطلاع دے سکتے ہیں۔