وشواس ٹیم نے اپنی پڑتال میں پایا کہ اترپردیش پولیس کی بدسلوکی اور ظلم کے نام سے جس ویڈیو کو وائرل کیا جا رہا ہے وہ پاکستان کے صوبہ پنجاب کا ہے۔
نئی دہلی (وشواس نیوز)۔ شہریت ترمیم بل اور اس کے قانون کی شکل اختیار کرتے ہی ملک میں جگہ جگہ احتجاجی مظاہروں کا آغاز ہوا جس میں لاتعداد لوگوں نے حصہ لیا۔ دریں اثنا اترپردیش کے متعدد اضلع میں بھی مظاہرے ہوئے اور عوامی املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔ اور بیچ پولیس کی جوابی کاورائی کے کچھ ویڈیوز بھی وائرل ہوئے۔ اسی ضمن میں وشواس نیوز کے ہاتھ ایک ویڈیو لگا جسے کچھ ماہ قبل کشمیر میں پولیس کی بربریت کے دعویٰ کے ساتھ وائرل کیا جا رہا تھا اور اب اسی ویڈیو کو یوپی پولیس کی بدسلوکی کے نام سے وائرل ہو رہا ہے۔ مذکورہ ویڈیو جب کشمیر کے نام سے وائرل ہوا تھا تب بھی واشوس نیوز نے اس دعویٰ کی پڑتال کی تھی اور پردہ فاش بھی کیا تھا۔
مذکورہ وائرل ویڈیو میں کچھ پولیس اہلکاروں کو متعدد خواتین کے ساتھ بدسلوکی کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ صارفین دعویٰ کر رہے ہیں کہ یہ ویڈیو اترپردیش کا ہےاور یہ یو پی پولیس ہے۔ وشواس ٹیم کی پڑتال میں یہ دعویٰ فرضی ثابت ہوا۔ یہ ویڈیو اترپردیش کا نہیں، بلکہ پاکستان کے پنجاب صوبہ کا ہے۔ اور پولیس کی جانب سے کی گئی اس بربریت کا معاملہ وہیں پیش آیا تھا۔
اس پوسٹ کے آرکیئو ورژن کو یہاں دیکھیں۔
فیس بک صارف ’حکیم مظفر حسین اجمل‘ نے ایک ویڈیو شیئر کیا جس میں کچھ پولیس اہلکار متعدد خواتین کو پیٹتے اور ان کے ساتھ بدسلوکی کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ 28 سیکنٹ کے اس ویڈیو کو صارف نے شیئر کرتے ہوئے کیپشن لکھا ہے، ’’یوگی کی پولیس کا ظلم دیکھیئے‘‘۔
پڑتال کئے جانے تک اس ویڈیو کو تقریبا دو ہزار لوگوں نے شیئر کیا ہے وہیں 11 ہزار صارفین اس ویڈیو کو اب تک دیکھ چکے ہیں۔
سب سے پہلے ہم نے ویڈیو کو دو- تین بار غور سے دیکھا۔ ویڈیو کے 10ویں سیکنڈ پر ہمیں نظر آرہے پولیس اہلکاروں میں ایک اہلکار کی وردی پر پاکستان کا پرچم نظر آیا۔
اب ہم نے ان ویڈ ٹول کے ذریعہ ویڈیو کے متعدد کی فرمس نکالے اور ان کو گوگل رورس امیج سرچ کیا حالاںکہ وہاں ہمارے ہاتھ کوئی ثبوت نہیں لگا۔ اب ہم نے ایک کی فریم کو اپنے کمپیوٹر میں سیو کر کے اسے ینڈکس پر سرچ کیا۔ سرچ کے نتائج میں ہمیں یہ ویڈیو مدیہا مسعود کے ٹویٹر ہینل پر ملا۔ انہوں نے اس ویڈیو کو 5 ستمبر 2019 کو شیئر کرتے ہوئے اسے پاکستان پنجابی پولیس کا بتایا۔
علاوہ ازیں ہمیں یہ ویڈیو فراز وہاب کے ٹویٹر ہینڈل سے بھی ملا۔ انہوں نے اس ٹویٹ کو 27 جون 2019 کے روز کیا ہے۔
اب یہ بات تو واضح ہو گئی تھی کہ یہ ویڈیو ہندوستان کا نہیں بلکہ پاکستان کا ہے۔ اس کے لئے ہم نے گوگل پر متعدد کی ورڈ ڈال کر اس ویڈیو کو تلاش کرنا شروع کیا اور ہمارے ہاتھ 26 جون 2019 کو ’ہیڈ لائن نیوز‘ نام کے یوٹیوب چینل پر اپ لوڈیڈ ایک ویڈیو لگا۔ ویڈیو کے اندر ہمیں ’’پنجاب پولیس کا ملتاب خواتین کے ساتھ بدترین تشدد‘ لکھا ہوا نظر آیا۔ علاوہ ازیں ویڈیو میں پاکستانی پولیس کے اس تشدد کی مزید تفصیل بھی دی گئی۔
اس سے قبل مذکورہ ویڈیو کشمیر میں خواتین پر ظلم کے نام سے وائرل ہوا تھا ویڈیو کی پڑتال کے بعد ہم نے دینک جاگرن کے جموں و کشمیر ایڈیٹر راہل شرما سے رابطہ کیا تھا اور ان کے ساتھ ویڈیو شیئر بھی شیئر کیا تھا۔ جس پر انہوں نے بتایا تھا کہ ’’یہ ویڈیو کشمیر کا نہیں ہے‘‘۔ علاوہ ازیں انہوں نے مزید کہا تھا کہ بتایا کہ گزشتہ روز میری بات اے ڈی جی پی منیر خان سے ہوئی تھی اور انہوں نے بتایا کہ، ’’بہت سے فرضی ویڈیو اور تصاویر کو کشمیر کے نام سے وائرل کیا جا رہا ہے اور اس موضوع پر ہم جلد از جلد مناسب کاروائی کریں‘‘۔
اب باری تھی اس پوسٹ کو فرضی حوالے کے ساتھ وائرل کرنے والے فیس بک صارف ’حکیم مظفر حسین اجمل‘ کی سوشل اسکیننگ کرنے کی۔ ہم نے پایا کہ اس صارف کا تعلق بہار سے ہے علاوہ ازیں اس پروفائل سے زیادہ ترخبروں کو شیئر کیا جاتا ہے۔
نتیجہ: وشواس ٹیم نے اپنی پڑتال میں پایا کہ اترپردیش پولیس کی بدسلوکی اور ظلم کے نام سے جس ویڈیو کو وائرل کیا جا رہا ہے وہ پاکستان کے صوبہ پنجاب کا ہے۔
اگر آپ کو ایسی کسی بھی خبر پر شک ہے جس کا اثر آپ کے معاشرے اور ملک پر پڑ سکتا ہے تو ہمیں بتائیں۔ ہمیں یہاں جانکاری بھیج سکتے ہیں۔ آپ ہم سے ای میل کے ذریعہ رابطہ کر سکتے ہیں contact@vishvasnews.com
اس کے ساتھ ہی واٹس ایپ (نمبر9205270923 ) کے ذریعہ بھی اطلاع دے سکتے ہیں