کووڈ 19 سے متاثر ہوئے مریضوں کی لاش کے اضاعہ کی اسمگلنگ کئے جانے کے دعوی کے ساتھ وائرل ہو رہی پوسٹ فرضی ہے۔ جس نیوز رپورٹ کے حوالے سے یہ دعوی کیا جا رہا ہے، وہ پوری طرح سے فرضی ہے، جسے افواہ پھیلنے کے مقصد سے شیئر کیا جا رہا ہے۔
نئی دہلی (وشواس نیوز)۔ کورونا وائرس کے بڑھتے معاملوں کے درمیان کئی طرح کی افواہیں سوشل میڈیا پر پھیلائی جا رہی ہے۔ ایسی ہی ایک افواہ وائرس سے متاثر مریضوں کی موت کے بعد ان کی اعضاء کی اسمگلنگ سے منسلک ہے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہے کئی پوسٹ میں دعوی کیا جا رہا ہے کہ کورونا وائرس سے ہوئی موت کے بعد خاندان کی ضد پر جب ایک مریض کے لاش کا پوسٹ مارٹم کرایا گیا، تو اس کے سارے اعضاء غائب ملے۔
وشواس نیوز کی پڑتال میں یہ دعوی غلط نکلا۔ جس نیوز رپورٹ کے ذریعہ سے یہ دعوی کیا جا رہا ہے وہ پوری طرح سے امیجنری اور فرضی ہے، جسے افواہ کے طور پر پھیلایا جا رہا ہے۔ ممبئی کے جس علاقہ میں ایسے معاملہ ہونے کا دعوی کیا جا رہا ہے، وہاں بھی ایسا کوئی معاملہ سامنے نہیں آیا ہے۔ محض اتنا ہی نہیں ملک کے کسی دیگر حصہ میں بھی کورونا مریضوں کی لاشوں کے اعضاء کی اسمگلنگ کا کوئی معاملہ سامنے نہیں آیا ہے۔
فیس بک صارف ’حسین اعظم‘ نے وائرل پوسٹ (آرکائیو لنک) شیئر کرتے ہوئے لکھا ہے
ملک میں بہت سارے کاروبار ہیں۔ لوگوں کے گردوں کو ہٹایا جارہا ہے۔ انہیں یہ بتا کر ہلاک کیا جارہا ہے کہ کورونا ہے۔ کیا ہو رہا ہے؟ محتاط رہیں۔ کورونا کے نام پر نیا گھوٹالا۔
بھایندر کے گورائی میں گزشتہ دنوں کوئی کیس نہیں تھا، ایک شخص کو ہلکہ بخار، سردی کھانسی ہوئی تو چیک کروانے گیا۔ اسے زبردستی داخل کر کے رپورٹ پازیٹیو بتائی گئی۔ پھر اچانک اس کا آج انتقال ہو جاتا ہے اور پوری باڈی پیک کر کے جلانے کی تیاری کی جاری ہے مگر خاندان والوں کے ضد کرنے والوں پر جب باڈی کو کھولا جاتا ہے تو جسم کے ساتھ سارے اعضاء غائب ملتے ہیں۔ یہ ابھی مہاراشٹر میں گھوٹالا سامنے آنے سے ہنگامہ مچا ہوا ہے، آخر کتنے لوگوں کے ساتھ ایسا کھلواڑ کیا گیا ہے۔ کیا بھگوران سمجھے جانے والا ڈاکٹر شیطان جیسے حرکت پر اتر آیا ہے۔ اس کی پوری سی بی آئی جانچ کروائی جائے تو پتہ لگایا جائے کہ ایسے طریقوں سے لوگوں کا خون کر کے اس کورونا دور میں جو انسانی اعضاء کی اسمگلنگ کی جا رہی ہے، ایسے بےدرد ملزموں کو سخت سزا ملنی چاہئے۔ اوم شکلا۔ دہلی کرائم پریس
اس پوسٹ کو اب تک ساڑھے 6 ہزار لوگ شیئر کر چکے ہیں ۔ اور 3 ہزار لوگوں نے لائک کیا ہے۔
وائرل پوسٹ میں شامل تصاویر کو رورس امیج کرنے پر ہمیں دہلی کرائم پریس ڈاٹ کام کی ویب سائٹ پر 20 جولائی کو شائع خبر(آرکائیو لنک)، جس میں وائرل پوسٹ کے ساتھ اسمتعمال کی گئی تصاویر میں سے ایک کا استعمال کیا گیا ہے۔ تصویر کے ساتھ ’کورونا کے نام پر نیا گھوٹالا‘ سرخی سے لکھی گئی خبر ہوبہو وہی ہے، جسے سوشل میڈیا پر شیئر کیا جا رہا ہے۔
دہلی کرائم پریس کی ویب سائٹ پر کورونا وائرس مریضوں کے اعضاء کی اسمگلنگ کے دعوی کے ساتھ لکھی گئی رپورٹ اوم شکلا (دہلی کرائم پریس) کے نام پر شائع ہے۔ سوشل میڈیا سرچ میں ہمیں اوم شکلا کا فیس بک پروافائل (آرکائیو لنک)ملا، جس میں اس نے خود کو ’دہلی کرائم پریس‘ میں اسپیشل انویسٹیگیٹر بتایا ہے۔
اس رپورٹ کو لے کر ہم نے اوم شکلا سے رابطہ کیا۔ رپورٹ کی حقیقت اور کے ذرائع کے بارے میں پوچھے جانے پر شکلا نے کہا، ’میں نے ایسی کوئی رپورٹ فائل نہیں کی ہے‘۔ شکل نے یہ بھی دعوی کیا کہ وائرل پوسٹ میں جن تصاویر کا استعمال کیا گیا ہے، وہ مہاراشٹرا کی نہیں، بلکہ لکھنئو کی ہیں۔
اس کے بعد ہم نے انہیں ’دہلی کرائم پریس’ کی ویب سائٹ پر اس کے نام سے لکھی رپورٹ کا لنک شیئر کر اس کا ردعمل جاننا چاہا، تو انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہے تمام پوسٹ میں مذکورہ گھوٹالے کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس کے متعلقہ ورڈ کے ساتھ سرچ کرنے پر ہمیں ایسی کئی خبریں ملیں، جس میں کیا گیا دعوی وہی ہے، جو دہلی کرائم پریس کی ویب سائٹ پر لگی رپورٹ میں ہے۔
سواتنتر پربھات نام کی ویب سائٹ پر 20 جولائی 2020 کو ’کورونا کے نام پر نیا گھوٹالا‘ سرخی سے شائع ہوئی خبر (آرکائیو لنک) 20 جولائی کو ہی ’دہلی پریس کرائم‘ کی ویب سائٹ پر شائع ہوئی فرضی رپورٹ کی ہوبہو کاپی ہے۔ اس خبر میں جس تصویر کا استمعال کیا گیا ہے وہ، وائرل پوسٹ میں استعمال کی گئی تصاویر میں سے ایک ہے۔
ایک اور ویب سائٹ ائی بی این 24انٹو 7 نیوز ڈاٹ کام پر 20 جولائی کو ہی ایک جیسی سرخی کے ساتھ خبر (آرکائیو لنک) لگی ہے، جس ’دہلی پریس کرائم کی ویب سائٹ پر شائع فرضی رپورٹ کی ہوبہو کاپی ہے۔
اس خبر میں بھی جن تصاویر کا استعمال کیا گیا ہے، وہ وائرل فیس بک پوسٹ میں استعمال کی گئی تصاویر میں سے ایک ہے۔ ان تمام رپورٹ کے شائع ہونے کی تاریخ (20 جولائی) ہی ہے، تاہم فیس بک ٹویٹر پر وائرل کئے جانے والے زیادہ تر پوسٹ کی تاریخ 21 جولائی ہے۔
اس کے بعد ، ہم نے پوسٹ میں کیے گئے دعوے کی سچائی کی جانچ کرنے کے لئے نیوز سرچ کا استعمال کیا۔ نیوز سرچ میں ، ہمیں مہاراشٹرا یا ملک کے کسی بھی علاقے میں کورونا انفیکشن کے باعث مرنے والے مریضوں کے اعضاء کے گم ہونے کی خبر نہیں ملی۔
تاہم ، ہمیں نیوز سرچ میں ایک خبر ملی ، جس میں کورونا وائرس کے انفیکشن کے بہانے انسانی اعضا کی اسمگلنگ کی افواہ کی وجہ سے مقامی افراد نے صحت کے کارکنوں کے ساتھ بدسلوکی کی گئی تھی۔
این بی ٹی پر 16 جولائی کو شائع ہوئی ایک رپورٹ کے مطابق ، ’شمالی ممبئی میں گورائی پولیس کے گاؤں منوری میں اچانک اس وقت ہنگامہ ہو گیا جب سینکڑوں گاؤں والوں نے بی ایم سی کے ہیلتھ ورکرز کو انسانی اعضاء اسمگلر سمجھا اور ان کے ساتھ بد سلوکی کی۔ لوگ اس قدر ناراض ہوئے کہ انہوں نے سرکاری صحت کے کارکنوں کو مارنا شروع کردیا۔ لوگوں میں یہ افواہیں پھیلائی گئیں کہ یہ ایک گینگ ہے جو کوارنٹائن کرنے کے بہانے لوگوں کے جسمانی اعضاء کو نکالتی ہے ۔ اس واقعے کے بارے میں اطلاع ملنے پر ، گورائ پولیس ناراض لوگوں کو پرسکون کرنے اور صورتحال پر قابو پانے کے لئے ہمراہ موقع پر پہنچی۔
چونکہ، وائرل ہونے والی پوسٹ میں گورائی کا ذکر ہے ، لہذا ہم نے وائرل ہوئے دعوے کی تصدیق کے لئے گورائی کے پولیس انسپکٹر (کرائم) کرن گناجی سونکاوڑے سے رابطہ کیا۔ وشواس نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا ، ’’ایسا کوئی واقعہ سامنے نہیں آیا ہے۔ یہ ایک افواہ سوشل میڈیا پر پھیلائی جارہی ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ اس طرح کی افواہوں کی وجہ سے قریبی علاقے میں ہلتھ ورکز سے بدتمیزی ہوئی ہے۔
حکومت کے 27 جولائی 8 بجے کے عداد و شمار کے مطابق، مہاراشٹرا میں کووڈ 19 متاثر مریضوں کی تعدد 375،799 ہے۔ ابھی تک کل 213، 238 مریض ٹھیک ہو چکے ہیں، جبکہ اس وبا سے 13656 لوگوں کی موت ہوئی ہے۔
اب باری تھی اس پوسٹ کو فرضی دعوی کے ساتھ شیئر کرنے والے فیس بک پیج ’حسین اعظم‘ کی سوشل اسکیننگ کرنے کی۔ اس پیج کو 200،777صارفین فالوو کرتےہیں۔
ڈس کلیمر، اعلامیہ دست برداری: وشواس نیوز کی کورونا وائرس (کووڈ-19) سے منسلک فیکٹ چیک خبروں کو پڑھتے یا اسے شیئر کرتے وقت آپ کو اس بات پر غور کرنا ہوگا کہ جن اعداد و شمار یا ریسرچ متعقلہ ڈیٹا کا استعمال کیا گیا ہے، وہ مسلسل بدل رہے ہیں۔ بدل اسلئے رہے ہیں کیوں کہ اس وبا سے جڑے اعداد و شمار (متاثرین اور ٹھیک ہونے والے مریضوں کی تعداد، اس سے ہونے والی اموات کی تعداد) میں مسلسل تبدیلیاں ہو رہی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اس بیماری کا ویکسین بننے سے منسلک چل رہے تمام ریسرچ کے پختہ نتائج آنے باقی ہیں، اور اس وجہ سے علاج اور بچاؤ کو لے کر فراہم کردہ اعداد و شمار میں بھی تبدیلیاں ہو سکتی ہیں۔ اسلئے ضروری ہے کہ خبر میں استعمال کئے گئے ڈیٹا کو اس کی تاریخ سے جوڑ کر دیکھا جائے۔
نتیجہ: کووڈ 19 سے متاثر ہوئے مریضوں کی لاش کے اضاعہ کی اسمگلنگ کئے جانے کے دعوی کے ساتھ وائرل ہو رہی پوسٹ فرضی ہے۔ جس نیوز رپورٹ کے حوالے سے یہ دعوی کیا جا رہا ہے، وہ پوری طرح سے فرضی ہے، جسے افواہ پھیلنے کے مقصد سے شیئر کیا جا رہا ہے۔
اگر آپ کو ایسی کسی بھی خبر پر شک ہے جس کا اثر آپ کے معاشرے اور ملک پر پڑ سکتا ہے تو ہمیں بتائیں۔ ہمیں یہاں جانکاری بھیج سکتے ہیں۔ آپ ہم سے ای میل کے ذریعہ رابطہ کر سکتے ہیں contact@vishvasnews.com
اس کے ساتھ ہی واٹس ایپ (نمبر9205270923 ) کے ذریعہ بھی اطلاع دے سکتے ہیں