فیکٹ چیک: پٹنہ میں 4 سال پہلے ہوئے لاٹھی چارج کا ویڈیو کشمیر کے نام پر وائرل

نئی دہلی (وشواس نیوز)۔ سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہو رہا ہے۔ متعدد صارفین دعویٰ کر رہے ہیں کہ ویڈیو کشمیر کا ہے۔ ویڈیو میں کچھ لوگوں کو پولیس ڈنڈوں سے مارتی ہوئی نظر آرہی ہے۔

وشواس ٹیم نے جب اس ویڈیو کی پڑتال کی تو ہمیں پتہ چلا کہ ویڈیو کشمیر کا نہیں، بلکہ بہار کی دارالحکومت پٹنہ کا ہے۔ ویڈیو 27 اگست 2015 کا ہے۔ اسی دن پٹنہ کے گردنی باغ میں پولیس نے مدرسہ اساتذہ پر لاٹھی چارچ کیا تھا۔ ویڈیو اسی لاٹھی چارج کا ہے۔

کیا ہے وائرل پوسٹ میں

فیس بک ’کیک پریس ڈاٹ فار ٹروتھ نے ویڈیو کو اپ لوڈ کرتے ہوئے لکھا، ’’کشمیر میں پرساد بٹنا شروع‘‘۔

اس پوسٹ کو 2500 سے زیادہ لوگ شیئر کر چکے ہیں۔ اس پر کمینٹ کرنے والوں کی تعداد 300 سے زیادہ ہے۔ اس ویڈیو کو دوسرے فیس بک صارفین بھی مسلسل شیئر کر رہے ہیں۔

پڑتال

وشواس ٹیم نے سب سے پہلے وائرل ہو رہے ویڈیو کو غور سے دیکھا۔ ویڈیو کے 27ویں سیکنڈ میں ہمیں ایک پولیس اسٹیشن کا بورڈ دکھا۔ اس کے اوپر لکھا تھا گردنی باغ تھانہ۔

اب ہمیں یہ جاننا تھا کہ یہ تھانہ کہاں پر ہے۔ اس کے لئے ہم نے گوگل سرچ کی مدد لی۔ گوگل میں جب ہم نے گردنی باغ تھانہ ٹائپ کر کے سرچ کیا تو ہمیں پتہ چلا کہ یہ بہار کی دارالحکومت پٹنہ کا ایک تھانہ ہے۔

اب ہمیں یہ جاننا تھا کہ وائرل ویڈیو کس معاملہ کا ہے۔ اس کے لئے ہم نے ان ویڈ ٹول کی مدد لی۔ ان ویڈ ٹول کے ذریعہ ہم نے ویڈیو کے کی فریمس نکالے۔ پھر ان فریمس کو گوگل رورس امیج میں سرچ کیا۔ سرچ کے دوران ہمیں نیوز18 کی ویب سائٹ پر ایک پرانی خبر ملی۔

نیوز18 کی سائٹ پر 27 اگست 2015 کو شائع اس خبر میں بتایا گیا کہ پٹنہ میں پولیس اور مدرسہ ٹیچرس اسوسی ایشن کے درمیان جھڑپ ہونے کے بعد لاٹھی چارچ ہوا۔ اس میں متعدد اساتذہ زخمی ہو گئے۔ یہ مدرسہ اساتذہ اسمبلی کا گھیراؤ کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ انہیں قابو میں لانے کے لئے پولیس نے لاٹھی چارج کیا تھا۔

پڑتال کے دوران ہمیں یہ خبر متدد ویب سائٹ پر بھی ملی۔ اس کا پرنٹ شاٹ آپ نیچے دیکھ سکتے ہیں۔

اس کے بعد وشواس ٹیم نے پٹنہ کے دنیک جاگرن کے رپورٹر آشیش شکلا سے رابطہ کیا۔ انہوں نے بتایا، ’’وائرل ویڈیو پٹنہ میں واقع گردنی باغ تھانہ کے پاس کا ہے۔ اگست 2015 میں گردنی باغ کے قریب بہار کے مدرسہ اساتذہ اپنے مطالبات کو لے کر ہڑتال کر رہے تھے۔ مطالبہ کرتے ہوئے اساتذہ محدود علاقہ میں داخل ہونے کی کوشش کرنے لگے۔ پھر پولیس نے لاٹھی چارج کر دیا۔ لاٹھی چارج میں تقریبا ایک درجن اساتذہ زخمی ہو گئے تھے۔ جھڑپ میں 11 پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے تھے۔ کچھ لوگ پولیس کی مار سے بچنے کے لئے کیچڑ میں کود گئے تھے‘‘۔

اپنی جانچ کو آگے بڑھاتے ہوئے ہم گوگل میپ پر گئے۔ مدرسہ اساتذہ پر لاٹھی چارج گردنی باغ پولیس اسٹیشن کے قریب ہڑتال کے مقام پر ہوا تھا۔ یہ اساتذہ اسمبلی کی جانب اپنا رخ کر رہے تھے، جو کہ محود مقام ہے۔ گوگل میپ سے ہمیں معلوم ہوا کہ گردنی باغ پولیس اسٹیشن سے بہار اسمبلی کی دوری محض 500 میٹر ہے۔ یہ آپ نیچے دیکھ سکتے ہیں۔

اپنی جانچ کو آگے بڑھاتے ہوئے اب باری تھی پٹنہ کے علی پولیس اہلکار سے بات کرنے کی۔ پٹنہ ایس ایس پی گریما ملک کا کہنا ہے کہ وائرل ویڈیو اب ہماری جانکاری میں آگیا ہے۔ سائبر سیل معاملہ کی تفتیش کر رہی ہے۔ جس پیج پر اس طرح کے ویڈیو وائرل کئے جا رہے ہیں اس کی پڑتال کی جا رہی ہے۔

آخر میں ہم نے کیک پریس فار ٹروتھ فیس بک پیج کی سوشل اسکیننگ کی۔ ہمیں پتہ چلا کہ اس پیج کو 25 مارچ 2019 کو بنایا گیا تھا۔ اسے پانچ ہزار سے زائد لوگ فالوو کرتے ہیں۔ اس پیج پر ایک خاص فرقہ کے خلاف پوسٹ کی جاتی ہیں۔

نتیجہ: وشواس ٹیم کی پڑتال میں معلوم ہوا کہ جس ویڈیو کو کشمیر کا بتا کر وائرل کیا جا رہا ہے، وہ پٹنہ کا تقربا چار سال پرانا ویڈیو ہے۔27 اگست 2015 کو احتجاجی مظاہرہ کر رہے مدرسہ اساتذہ پر پولیس نے لاٹھی چارج کیا تھا۔ ویڈیو اسی دوران کا ہے۔

مکمل سچ جانیں…سب کو بتائیں

اگر آپ کو ایسی کسی بھی خبر پر شک ہے جس کا اثر آپ کے معاشرے اور ملک پر پڑ سکتا ہے تو ہمیں بتائیں۔ ہمیں یہاں جانکاری بھیج سکتے ہیں۔ آپ ہم سے ای میل کے ذریعہ رابطہ کر سکتے ہیں
contact@vishvasnews.com 
اس کے ساتھ ہی واٹس ایپ (نمبر9205270923 ) کے ذریعہ بھی اطلاع دے سکتے ہیں۔

False
Symbols that define nature of fake news
Related Posts
Recent Posts