وشواس نیوز نے اپنی پڑتال کی تو پایا کہ یہ تصویر سوشل میڈیا پر 2017 سے موجود ہے اور اس کا حالیہ حملہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
نئی دہلی (وشواس نیوز)۔ سوشل میڈیا پر ایک تصویر وائرل ہو رہی ہے جس میں مسجد جیسی نظر آنے والی عمارت کے اندر سے دھوئیں کے غبار کو نکلتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ اور بہت سے لوگ باہر کھڑے اس منظر کو دیکھتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ اب اسی تصویر کو دو ستمبر کو شیئر کرتے ہوئے صارفین یہ دعوی کر رہے ہیں کابل کی مسجد میں حملہ ہوا ہے اور یہ اسی کی تصویر ہے۔ جب ہم نے اپنی پڑتال کی تو پایا کہ یہ تصویر سوشل میڈیا پر 2017 سے موجود ہے اور اس کا حالیہ حملہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
فیس بک صارف نے وائرل پوسٹ کو شیئر کیا جس کی تصویر میں لکھا تھا،’کابل: افغانستان میں نماز جمعہ کے دوران مسجد حوفناک دھماکہ سے لزر اٹھی، دھماکہ میں پیش امام شہید ہو گئے‘۔ وہیں اس پوسٹ کو شیئر کرتے ہوئے صارف نے کیپشن میں لکھا ہے، ’افغانی صوبے ہرات کی ایک مسجد میں زور دار دھماکہ جس میں بیس افراد جاں بحق اور کئی افراد زخمی ہوگئے۔ طالبانی رہنما مجیب الرحمان بھی دھماکے میں مارا گیا‘۔
پوسٹ کے آرکائیوو ورژن کو یہاں دیکھیں۔
اپنی پڑتال کو شروع کرتے ہوئے سب سے پہلے ہم نے وائرل تصویر کو گوگل رورس امیج کے ذریعہ وائرل تصویر کو سرچ کیا۔ سرچ میں ہمیں یہ تصویر آئی ایس این اے نام کی ویب سائٹ 24 اکتوبر 2019 کو شائع ہوئی خبر میں ملی۔ خبر کے ساتھ دی گئی معلومات کے مطابق افغانستان کی ایک مسجد میں دھماکہ ہوا۔ مکمل خبر یہاں پڑھیں۔
اسی بنیاد پر سرچ کئے جانے پر ہمیں یہ تصویر ڈیلی انڈونیشیا نیوز نام کی ویب سائٹ پر بھی ہمیں 19 اکتوبر 2019 کو شائع ہوئی خبر میں ملی۔ یہاں بھی اس تصویر کو افغانستان مسجد حملہ کی بتایا گیا ہے۔ مکمل خبر یہاں دیکھیں۔
مزید تصدیق کئے جانے پر ہمیں یہ تصویر تسنیم نیوز ڈاٹ کام کی ویب سائٹ پر ملی۔ 6 جون 2017 کو شائع ہوی خبر میں بتایا گیا کہ افغان شہر ہرات میں ایک مسجد کے باہر ایک مشتبہ بم دھماکے میں کم از کم سات افراد ہلاک اور 15 زخمی ہو گئے۔ مکمل خبر یہاں دیکھیں۔
یہ تصویر افغانستان میں سالوں پہلے ہوئے دھماکہ کی ہے حالاںکہ وشواس نیوز آزادانہ طور پر اس بات کی تصدیق نہیں کر سکتا ہے کہ وائرل تصویر کب کی ہے یا افغانستان کے کس شہر کی ہے۔ جب ہم نے افغانستان کے صحافی جاوید تنویر سے رابطہ کیا اور وائرل کی جا رہی تصویر ان کے ساتھ شیئر کی۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ یہ تصویر پرانی ہے اور مزار شریف شہر کی ہے۔ جس کا موجودہ حملہ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
بی بی سی کی خبر کے مطابق 2 ستمبر کو ہرات شہر میں واقع مسجد کے باہر ہوئے دھماکہ میں طالبان کمانڈر مجیب الرحمان سمیت 18 لوگ کے مارے گئے۔
گمراہ کن پوسٹ کو شیئر کرنے والے فیس بک صارف کی سوشل سکیننگ میں ہم نے پایا کہ صارف کی صارف فیس بک پر کافی سرگرم رہتا ہے اور اس کو 3111 لوگ فالوو کرتے ہیں۔
نتیجہ: وشواس نیوز نے اپنی پڑتال کی تو پایا کہ یہ تصویر سوشل میڈیا پر 2017 سے موجود ہے اور اس کا حالیہ حملہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اگر آپ کو ایسی کسی بھی خبر پر شک ہے جس کا اثر آپ کے معاشرے اور ملک پر پڑ سکتا ہے تو ہمیں بتائیں۔ ہمیں یہاں جانکاری بھیج سکتے ہیں۔ آپ ہم سے ای میل کے ذریعہ رابطہ کر سکتے ہیں contact@vishvasnews.com
اس کے ساتھ ہی واٹس ایپ (نمبر9205270923 ) کے ذریعہ بھی اطلاع دے سکتے ہیں