وشواس نیوز کی پڑتال میں وائرل پوسٹ فرضی ثابت ہوئی۔ آسام کی چھ سال پرانی تصویر کو اب کچھ لوگ بہار کی بتا کر وائرل کر رہے ہیں۔
نئی دہلی (وشواس نیوز)۔ سوشل میڈیا پر ایک پتلے دبلے شخص کی ووٹ ڈالتے ہوئے تصویر وائرل ہو رہی ہے۔ دعوی کیا جا رہا ہے کہ یہ تصویر بہار انتخابات سے منسلک ہے۔
وشواس نیوز نے وائرل پوسٹ کی جانچ کی۔ ہمیں پتہ چلا کہ 2014 کی ایک تصویر اب بہار میں ووٹ ڈالنے کے نام سے وائرل کیا جا رہا ہے۔ اصل تصویر آسام کی ہے۔ اس کا بہار انتخابات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
فیس بک صارف مسعود الرحمان نے 29 اکتوبر کو ایک تصویر اپ لوڈ کرتے ہوئے دعوی کیا:’بہار میں نتیش راج کے 15 سال کی تقری کی جیتی جاگتی تصویر ووٹ ڈالتے ہوئے۔ یہ اسی امید سے آئے ہوں گے پولنگ بوتھ کاش کچھ تصویر بدلے جو یہ جھیل رہے ہیں ان کے بچوں کو نہ جھیلنا پڑے‘‘۔
پوسٹ کے آکائیو ورژن کو یہاں دیکھیں۔
وشواس نیوز نے سب سے پہلے وائرل ہو رہی ہے تصویر کو گوگل رورس امیج ٹول میں اپ لوڈ کر کے سرچ کیا۔ سرچ کے دوران ہمیں یہ تصویر جنجوار ڈاٹ کام کی ایک خبر میں ملی۔ اس تصویر کو لیکر خبر میں صرف اتنا بتایا گیا کہ یہ کوئی آدیواسی ہیں۔ خبر 19 نومبر 2019 کو شائع ہوئی تھی۔ یعنی صاف تھا کہ تصویر کا بہار انتخابات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
پڑتال کے دوران ہمیں اصل تصویر ’دا ہندو‘ کی ویب سائٹ پر ملی۔ 13 اپریل 2014 کو شائع ہوئی خبر میں بتایا گیا کہ تصویر آسام کے کاربی آنگ لونگ ضلع کے تیوا برادری کے ایک شخص کی ہے۔ یہ شخص اپنا ووٹ ڈالنے آیا تھا۔ اس تصویر کو ریتو راج کنور نام کے فوٹو گرافر نے کھینچا تھا۔ مکمل خبر یہاں پڑھ سکتے ہیں۔
پڑتال کے اگلے مرحلہ میں وشواس نیوز نے ریتو راج کنور سے رابطہ کیا۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ وہ کبھی بہار گئے بھی نہیں ہیں، پھر بھی لوگ ان کی پرانی تصویر کو وائرل کر رہے ہیں۔
پوسٹ کو فرضی دعوی کے ساتھ شیئر کرنے والے فیس بک صارف ’مسعود الرحمان‘کی سوشل اسکیننگ میں ہم نے پایا کہ صارف کا تعلق حیدرآباد سے ہے۔
نتیجہ: وشواس نیوز کی پڑتال میں وائرل پوسٹ فرضی ثابت ہوئی۔ آسام کی چھ سال پرانی تصویر کو اب کچھ لوگ بہار کی بتا کر وائرل کر رہے ہیں۔
اگر آپ کو ایسی کسی بھی خبر پر شک ہے جس کا اثر آپ کے معاشرے اور ملک پر پڑ سکتا ہے تو ہمیں بتائیں۔ ہمیں یہاں جانکاری بھیج سکتے ہیں۔ آپ ہم سے ای میل کے ذریعہ رابطہ کر سکتے ہیں contact@vishvasnews.com
اس کے ساتھ ہی واٹس ایپ (نمبر9205270923 ) کے ذریعہ بھی اطلاع دے سکتے ہیں