X
X

فیکٹ چیک: پرانی تصویر کو ایڈیٹڈ کر کے جے این یو سی اے اے احتجاج کے نام سے کیا جا رہا ہے وائرل

وشواس نیوز نے اپنی پڑتال میں پایا کہ وائرل کی جا رہی تصویر جے این یو سی اے اے احتجاج کی نہیں، بلکہ اجے این یو فیس اضافہ کو لے کر ہوئے مظاہرے کی ہے اور پلے کارڈ بھی ایڈیٹڈ ہے۔

  • By: Umam Noor
  • Published: Jan 20, 2020 at 04:59 PM

وشواس نیوز(نئی دہلی )۔ سوشل میڈیا پر سی اے اے احتجاج کے نام سے فرضی پوسٹ کا دور رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ اسی ضمن میں وشواس نیوز کے ہاتھ ایک تصویر لگی، جس میں ہندی کی بےحد غلطیوں والے پلے کارڈ پکڑے ایک لڑکی کی تصویر کے ساتھ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ یہ تصویر جواہر لال نہرو یونی ورسٹی کے سی اے اے احتجاج کی ہے۔ ہم نے جب دعویٰ کی پڑتال کی تو پایا کہ یہ تصویر جے این یو سی اے اے احتجاج کی نہیں، بلکہ جے این یو فی ہائک مظاہرے کی ہے اور کیا جا رہا پلے کارڈ ایڈیٹڈ ہے۔

کیا ہے وائرل پوسٹ میں؟

فیس بک صارف ’اتول پاٹھک‘ نے ایک پوسٹ شیئر کی جس میں ایک لڑکی کو ہاتھ میں پلے کارڈ پکڑے دیکھا جا سکتا ہے۔ پلے کارڈ میں لکھی ہندی زبان میں بےحد غلطیاں بھی نظر آرہی ہیں۔ صارفین نے تصویر کو شیئر کرتے ہوئے کیپشن میں لکھا، ’’یہی گدہوں کی فوج جے این یو میں ہے جو سی اے اے کو پڑھے بغیر احتجاج کر رہی ہے‘‘۔

پڑتال

وائرل دعویٰ کے مطابق، وشواس ٹیم کو دو چیزوں کی پڑتال کرنی تھی۔ پہلے یہ کہ کیا یہ پلے کارڈ ایڈیٹڈ ہے اور دوسرا یہ کہ کیا یہ تصویر سی اے اے مظاہرہ کی ہے۔ پڑتال کرنے کے لئے ہم نے سب سے پہلے تصویر کا رورس امیج سرچ کیا اور ہمارے ہاتھ متعدد لنک لگے، جس میں ہمیں پلے کارڈ پکڑے اسی لڑکی کی تصویر نظر آئی۔ انہیں میں ہمیں نیوز لانڈری ڈاٹ کام کا بھی لنک ملا۔ 11 نومبر 2019 کو شائع اس خبر میں پلے کارڈ والی خاتون کو دیکھا جا سکتا ہے۔ حالاںکہ، غور کرنے والی بات یہ تھی کہ پلے کارڈ پر وہ نہیں لکھا تھا، جسے وائرل کیا جا رہا ہے۔ خبر کی سرخی ہے
Over 3,000 JNU students protest 999% fee hike, police deploy water cannons
خبر میں بتایا گیا کہ جے این یو اضافی فیس معاملہ میں طلبات کا مظاہرہ جاری ہے۔ پوری خبر آپ یہاں پڑھ سکتے ہیں۔

پڑتال کے اگلے مرحلہ میں ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ وائرل لڑکی آخر ہیں کون۔ پڑتال میں ہمیں معلوم ہوا کہ وائرل کی جا رہی خاتون کا نام پرینکا بھارتی ہے۔ اب ہم نے فیس بک پر انہیں تلاش کیا اور ہمارے ہاتھ ان کا ایف بی اکاونٹ لگا، جہاں پر ہمیں وائرل کی جا رہی تصویر بھی ملی۔ حالاںکہ، 11 نومبر 2019 کو شیئر کی گئی اس تصویر کے پلے کارڈ پر لکھا تھا، ’’توڑ دیں گے نوٹوں کی زنجیریں جو کھیچیگا شکشا(تعلیم) پے لکیریں‘‘۔ اب یہ تو واضح ہو چکا تھ کہ وائرل کیا جا رہا پلے کارڈ ایڈیٹڈ ہے اور تصویر پرانی ہے۔

شہریت ترمیمی بل 10 دسمبر 2019 کو لوک سبھا سے پاس ہونے کے بعد 11 دسمبر 2019 کو راجیہ سبھا سے بھی پاس ہوا۔ اس کے بعد صدر جمہوریہ کی منظوری ملی اور یہ بل قانون میں تبدیل ہو گیا۔ وائرل تصویر نومبر کی ہے جب کہ اس قانون کے خلاف 10 دسمبر سے ملک بھر میں احتجاجی مظاہروں کا آغاز ہوا۔ اس بات سے بھی تصدیق ہوتی ہے کہ وائرل کی جا رہی تصویر کا سی اے اے احتجاج سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

ہم نے سیدھے پرینکا بھارتی سے رابطہ کیا اور وائرل کی جا رہی تصویر اور سی اے اے سے جڑا دعویٰ ان کے ساتھ شیئر کیا۔ جس پر انہوں نے وشواس نیوز کو بتایا، ’’وائرل کیا جا رہا پلے کارڈ ایڈیٹڈ ہے اور یہ تصویر سی اے اے احتجاج کی نہیں، بلکہ جے این یو فیس اضافہ کو لے کر ہوئےاحتجاج کی نومبر کی ہے‘‘۔

اب باری تھی اس پوسٹ کو فرضی حوالے کے ساتھ وائرل کرنے والے فیس بک صارف ’اتول پاٹھک‘ کی سوشل اسکیننگ کرنے کی۔ ہم نے پایا کہ اس صارف کی جانب سے اس سے قبل بھی فرضی پوسٹ شیئر کی جا چکی ہیں۔ علاوہ ازیں اس صارف کو1,971 لوگ فالوو کرتے ہیں۔

نتیجہ: وشواس نیوز نے اپنی پڑتال میں پایا کہ وائرل کی جا رہی تصویر جے این یو سی اے اے احتجاج کی نہیں، بلکہ اجے این یو فیس اضافہ کو لے کر ہوئے مظاہرے کی ہے اور پلے کارڈ بھی ایڈیٹڈ ہے۔

  • Claim Review : ये देखिये jnu के पढ़े लिखे छात्र
  • Claimed By : Fb User- Atul Pathak
  • Fact Check : جھوٹ‎
جھوٹ‎
فرضی خبروں کی نوعیت کو بتانے والے علامت
  • سچ
  • گمراہ کن
  • جھوٹ‎

مکمل حقیقت جانیں... کسی معلومات یا افواہ پر شک ہو تو ہمیں بتائیں

سب کو بتائیں، سچ جاننا آپ کا حق ہے۔ اگر آپ کو ایسے کسی بھی میسج یا افواہ پر شبہ ہے جس کا اثر معاشرے، ملک یا آپ پر ہو سکتا ہے تو ہمیں بتائیں۔ آپ نیچے دئے گئے کسی بھی ذرائع ابلاغ کے ذریعہ معلومات بھیج سکتے ہیں۔

ٹیگز

اپنی راے دیں

No more pages to load

متعلقہ مضامین

Next pageNext pageNext page

Post saved! You can read it later