نئی دہلی (وشواس نیوز)۔ کشمیر کے نام سے فرضی ویڈیو اور تصاویر مسلسل وائرل ہو رہی ہیں۔ وشوس ٹیم نے پایا کہ یہ فیس بک پر گزشتہ کچھ روز سے ایک ویڈیو وائرل ہو رہا ہے۔ ویڈیو میں پولیس اہلکار دو لوگوں کو پیلٹ اور پیروں سے مارتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ ویڈیو سے متعلق سوشل میڈیا صارفین کا دعویٰ ہے کہ یہ ہندوستانی فوج ہے اور نظر آرہے لوگ کشمیری ہیں۔ وشواس ٹیم نے پڑتال کی تو ہمیں معلوم ہوا کہ یہ ویڈیو کشمیر کا نہیں بلکہ پاکستان کا 2009 کا ویڈیو ہے۔ اس ویڈیو میں پاکستانی فوج پشتون افراد پر ان کے طالبانی ہونے کے شک کی بنیاد پر تشدد کر رہی ہے۔
فیس بک صارف مائور روسلی نے اس 10 منٹ کے اس ویڈیو کو 16 ستمبر کو شیئر کیا۔ ویڈیو کے ساتھ انہوں نے کیشپن میں لکھا
Please send this to all the people you know around the world to show them what the Indian ARMY is doing to the kashmiri Muslims
Muslims do not do this kind of things to non muslims in muslim ruled country.
جس کا ترجمہ اردو میں کچھ اس طرح ہوگا، ’’سب کے ساتھ یہ ویڈیو شیئر کریں تاکہ پوری دنیا کو پتہ چل سکے کہ ہندوستانی فوج کشمیری مسلمانوں کے ساتھ کیا کر رہی ہے‘‘۔
ہم نے پایا کہ اسی دعویٰ کے ساتھ یہ ویڈیو فیس بک پر متعدد صارفین شیئر کر رہے ہیں۔
وشواس ٹیم نے پڑتال کا اغاز کیا اور سب سے پہلے ان ویڈ ٹول کی مدد سے ویڈیو کے کی فریمس نکالے اور ان کا رورس امیج سرچ کیا۔ پہلے ہی سرچ میں ہمیں وائرل ویڈیو سے متعلق تمام خبروں کے لنک مل گئے۔
دئے گئے لنک میں ہمیں الجزیرہ کی بھی خبر کا ایک لنک ملا۔ 2 اکتوبر 2009 کو شائع اس خبر میں کشمیر کے نام سے وائرل ہو رہے ویڈیو سے ہی لی گئی تصویر کو دیکھا جا سکتا ہے۔ خبر کی سرخی ہے
Video shows ‘Pakistan army abuse’
اردو میں کچھ اس طرح ترجمہ ہوگا، ’’ویڈیو سے نظر آئی ’پاکستانی فوج کی برسلوکی‘۔ خبر کے مطابق، پاکستان کے سوات میں پولیس اہلکاروں نے دو مشتبہ افراد کے طالبانی ہونے کے شک میں پیٹائی کی جس کا ویڈیو سوشل میڈیا اور یو ٹیوب پر وائرل ہو گیا ہے۔
اب ہم نے مناسب کی ورڈس ڈال کر معاملہ کی تفصیل جاننے کی کوشش کی اور ہمارے ہاتھ بی بی سی یو کے کی خبر کا لنک لگا۔ 1 اکتوبر 2009 کو شائع کی گئی خبر کے مطابق، ’’پاکستانی فوج کی بارپریت کا ایک 10 منٹ کا ویڈیو سوشل میڈیا پر زبردست وائرل ہو گیا ہے۔ طالبان ہونے کے شک میں فوج دو پشتون مشتبہ افراد کو مارتے ہوئے دکھ رہی ہے‘‘۔ مکمل خبر یہاں پڑھ سکتے ہیں۔
ہم نے ویڈیو کو یو ٹیوب پر تلاش کرنا شروع کیا اور ہمارے ہاتھ بہت سے لنک لگے جس میں اس ویڈیو کو دیکھا جا سکتا ہے۔ انہیں میں ہمیں 6962911 نام کے یو ٹیوب پر 2 اکتوبر 2009 کو اپ لوڈ کیا ہوا ویڈیو ملا۔ ویڈیو کے ساتھ دئے گئے کیپشن میں بھی اسے پاکستان کا بتایا گیا۔
معاملہ واضح ہو چکا تھا کہ یہ ویڈیو کشمیر کا نہیں بلکہ پاکستان کا 2009 کا ہے۔ ہم نے تصدیق کے لئے دینک جاگرن کے جموں کے سینئر رپورٹر راہل شرما سے رابطہ کیا اور ان کے ساتھ وائرل ویڈیو شیئر کیا۔ انہوں نے بتایا کہ، ’’یہ ویڈیو 2009 میں بہت وائرل ہو چکا ہے، یہ پاکستان کا ویڈیو کا اور ویڈیو میں نظر آرہی پاکستانی فوج کے جوان ہیں۔ اس ویڈیو کا کشمیر سے کوئی تعلق نہیں ہے‘‘۔
اب باری تھی اس پوسٹ کو فرضی حوالے کے ساتھ وائرل کرنے صارف مائور روسلی کی سوشل اسکیننگ کرنے کی۔ ہم نے پایا اس صارف کا تعلق ملیشیا سے ہے۔
نتیجہ: وشواس ٹیم نے کشمیر کے نام سے وائرل ہو رہا ویڈیو فرضی پایا ہے۔ وائرل ویڈیو پاکستان کا اکتبور 2009 کا ہے۔
اگر آپ کو ایسی کسی بھی خبر پر شک ہے جس کا اثر آپ کے معاشرے اور ملک پر پڑ سکتا ہے تو ہمیں بتائیں۔ ہمیں یہاں جانکاری بھیج سکتے ہیں۔ آپ ہم سے ای میل کے ذریعہ رابطہ کر سکتے ہیں contact@vishvasnews.com
اس کے ساتھ ہی واٹس ایپ (نمبر9205270923 ) کے ذریعہ بھی اطلاع دے سکتے ہیں