فیکٹ چیک: وارانسی میں ڈٹینشن سینٹر کا دعویٰ غلط، جیل میں بچہ کو دودھ پلاتی نظر آرہی غیر ملکی خاتون کی تصویر ہو رہی وائرل
- By: Umam Noor
- Published: Dec 29, 2019 at 03:50 PM
- Updated: Dec 29, 2019 at 03:52 PM
نئی دہلی (وشواس نیوز)۔ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاجی مظاہرہ اور ملک بھر میں ڈٹینشن سینٹر کی موجودگی کو لے کر بحث و مباحثہ کے درمیان سوشل میڈیا پر ایک خاتون کی اس کے بچے کے ساتھ تصویر وائرل ہو رہی ہے۔ دعویٰ کیا جا رہا ہےکہ اس خاتون کو وارانسی کے ڈٹینشن سنٹر میں قید کیا گیا ہے کیوں کہ وہ این آر سی (نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس) کی مخالفت کر رہی تھی۔
وشواس نیوز کی پڑتال میں یہ تصویر اور دعوےٰ غلط نکلے۔ وارانسی میں نہ تو کوئی ڈٹینشن سینٹر ہے اور نہ ہی یہ تصویر ہندوستان کی ہے۔
کیا ہے وائرل پوسٹ میں
فیس بک صارف ’بادشاہ راہل یادو‘ نہ جیل میں بند ایک خاتون کی تصویر کو شیئر کرتے ہوئے لکھا ہے، ’’یہ حکومت نہ تو ہندووں کی ہے اور نہ مسلمانوں کی۔ یہ اپنے فائدہ کے لئے کسی کو بھی جیل میں ڈال سکتی ہے‘‘۔ شیئر کی گئی تصویر کے اندر لکھا ہے، ’’مودی جی کے پارلیمانی حلقہ میں این آر سی کی مخالفت کرنے پر ڈٹینشن سینٹر میں ڈال دیا گیا۔ اس کی پھول سی بیٹی باہر۔ بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ مہم کا ایک منظر‘‘۔
پڑتال
وائرل ہو رہی تصویر میں جیل میں بند ایک خاتون اپنے بچے کو دودھ پلاتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ رورس امیج کرنے پر ہم ’کونٹروپنٹو بلاگ‘ نام کی ایک ویب سائٹ پر 13 جنوری 2013 کو اٹالیئن زبان میں شائع ایک خبر کا لنک ملا، جس میں اسی تصویر کا استعمال کیا گیا ہے۔
گوگل ٹرانلیشن کی مدد سے کئے گئےترجمہ کے مطابق، یہ تصویر ارجنٹینا کی ہے، جہاں جیل میں بند ایک خاتون کو اس کے بچے کو دودھ پلانے کے لئے باہر نہیں نکلنے دیا گیا اور اس وجہ سے انہونے جیل کی باؤنڈری کے اندر سے ہی بچے کو دودھ پلایا۔
ایک دیگر فیس بک صارف ’اے این اے‘ نے اس تصویر کو اپنی پروفائل پر 25 مئی 2013 کو شیئر کیا ہے۔
حالاںکہ، وشواس نیوز آزادنہ طور سے اس بات کی تصدیق نہیں کرتا ہے کہ یہ تصویر ارجنٹینا کے کسی جیل یا ڈٹینشن سینٹر کی ہے، لیکن یہ تصویر ڈجیٹل دنیا میں 2013 سے موجود ہے۔
جب کہ، شہریت ترمیمی بل 10 دسمبر 2019 کو لوک سبھا سے پاس ہونے کے بعد 11 دسمبر 2019 کو راجیہ سبھا سے بھی پاس ہوا۔ اس کے بعد صدر جمہوریہ کی منظوری ملی اور یہ بل قانون میں تبدیل ہو گیا ۔
اس بل کے خلاف 10 دمسبر سے ملک بھر میں احتجاجی مظاہروں کا آغاز ہوا۔ انگریزی اخبار ’ٹائمس آف انڈیا‘ کی خبر کے مطابق، اتر پردیش میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف 21 دسمبر کو مظاہرہ ہوا تھا، جس کے بعد ہزاروں لوگوں کو حراست میں لیا گیا۔
یعنی وائرل تصویر کا شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کے خلاف جاری احتجاجی مظاہرے سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اب آتے ہیں دوسرے دعوےٰ پر، جس میں وارانسی میں ڈٹینشن سینٹر کے ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔
لوک سبھا رکن ششی تھرور نے وزارت داخلہ سے ملک میں موجود ڈٹینشن سینٹرس کی تعداد اور اس میں رکھے گئے لوگوں کی تعداد سمیت چھ سوال پوچھے تھے۔ لوک سبھا کی ویب سائٹ پر موجود دستاویز کے مطابق، تھرور کے اس سوال (سوال نمبر 1724) کا جواب دو جلائی 2018 کو وزیر داخلہ جے کشن ریڈی کی جانب سے دیا گیا۔
حکومت کی جانب سے دی گئی اس معلومات کے مطابق، آسام میں ’’غیر ملکی قرار دئے گئے‘ لوگوں کو رکھنے کے لئے کچھ چھ ڈٹینشن سینٹرس ہیں اور 25 جون 2019 تک اس میں 1133 لوگوں کو رکھا گیا تھا۔ دیگر نیوز رپورٹس سے بھی ملک میں ڈیٹنشن سینٹرس کے ہونے کی تصدیق ہوتی ہے۔
وارانسی میں ڈٹینشن سینٹر کے دعوےٰ کو لے کر وشواس نیوز نے سینئر پولیس ایس پی پرابھاکر چودھری سے رابطہ کیا۔ انہوں نے کہا، ’’وارانسی میں ایسی کوئی ڈٹینشن سینٹر نہیں ہے‘‘۔ نیوز سرچ میں ہمیں اتر پردیش کے کسی دیگر ضلع میں ایسے کسی سینٹر کے ہونے سے معلومات نہیں ملی۔
اترپردیش حکومت کی جانب سے دی گئی آفیشیئل معلومات میں بھی ریاست میں ایسے کسی ڈٹینشن سینٹر کا ذکر نہیں ہے۔ معلومات کے مطابق، ’’اترپردیش محکمہ جیل کے پاس ایک ماڈل جیل، 5 سنٹرل جیل (مرکزی جیل)، 61 ضلع جیل، 2 سب جیل، بریلی میں ایک جووینائل اور لکھنئو میں ایک ناری بندی نکیتن ہے۔ ریاست میں کل 71 جیلیں ہیں‘‘۔
خبروں کے مطابق، آسام کے علاوہ کرناٹک ایسی ریاست ہے، جہاں ڈٹینشن سینٹر موجود ہے۔ نیوز رپورٹس کے مطابق مہاراشٹر میں بھی ایسے سینٹر کھولے جانے کا منصوبہ ہے۔
نتیجہ: اترپردیش کے وارانسی میں ڈٹینشن سینٹر ہونے کا دعویٰ غلط ہے۔ جس خاتون کی تصویر وارانسی کے ڈٹینشن سینٹر کے دعوےٰ کے ساتھ وائرل ہو رہی ہے، وہ غیر ملکی خاتون ہے۔
- Claim Review : مودی جی کے پارلیمانی حلقہ میں این آر سی کی مخالفت کرنے پر ڈٹینشن سینٹر میں ڈال دیا گیا۔ اس کی پھول سی بیٹی باہر۔ بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ مہم کا ایک منظر
- Claimed By : FB user- बादशाह राहुल यादव
- Fact Check : جھوٹ
مکمل حقیقت جانیں... کسی معلومات یا افواہ پر شک ہو تو ہمیں بتائیں
سب کو بتائیں، سچ جاننا آپ کا حق ہے۔ اگر آپ کو ایسے کسی بھی میسج یا افواہ پر شبہ ہے جس کا اثر معاشرے، ملک یا آپ پر ہو سکتا ہے تو ہمیں بتائیں۔ آپ نیچے دئے گئے کسی بھی ذرائع ابلاغ کے ذریعہ معلومات بھیج سکتے ہیں۔