X
X

فیکٹ چیک: مسلم نہیں ہے نہرو خاندان، فرضی شجرہ نسب کے ذریعہ کی جا رہی غلط تشہیر

  • By: Umam Noor
  • Published: Oct 24, 2019 at 06:27 PM
  • Updated: Aug 29, 2020 at 05:38 PM

نئی دہلی (وشواس ٹیم)۔ ملک کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کی مذہبی شناخت کو لے کر سوشل میڈیا پر ایک فرضی پوسٹ مسلسل وائرل ہوتی رہی ہے۔ ایک مرتبہ پھر سے یہ پوسٹ سوشل میڈیا پر شیئر کی جا رہی ہے۔ پوسٹ میں کیا گیا دعویٰ صحیح نہیں ہے، لیکن اسے بتانا ضروری ہے، تاکہ حقیقت معلوم ہو سکے۔

وائرل پوسٹ میں نہرو خاندان کے شجرہ نسب کا ذکر کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ نہرو کے والد اور دادا مسلم تھے۔ پوسٹ میں لکھا ہوا ہے، ’’جواہر لال نہرو کے دادا کا نام گنگا دھر نہرو نہیں، بلکہ غیاث الدین غازی تھا اور نہرو کے والد موتی لال نہرو مسلم تھے‘‘۔

وشواس نیوز کی پڑتال میں یہ پوسٹ فرضی معلومات کا ذخیرہ ثابت ہوئی، جس میں نہرو خاندان اور ان کے نسب شجرہ کو لے کر صرف جھوٹ لکھا گیا ہے۔

کیا ہے وائرل پوسٹ میں؟

فیس بک پر وائرل ہو رہی پوسٹ میں نہرو خاندان کی شجرہ نسب کو گرافکس کے ساتھ بتاتے ہوئے کہا گیا ہے کہ نہرو کے دادا حقیقت میں مسلم تھے اور ان کے دادا گانگادھر نہرو کا نام غیاث الدین غازی تھا۔

ف

پڑتال

پوسٹ کی حقیقت جاننے کے لئے نہرو خاندان کے شجرہ نسب کا پتہ لگانا ضروری تھا۔ سرچ میں ہمیں ہندوستانی حکومت کے وزارت ثقافت کی ویب سائٹ پر نہرو پورٹل (نہرو میموریئل میوزیئم اینڈ لائبریری) ملا، جہاں نہرو خاندان کی فیملی ٹری کو دکھایا گیا ہے۔

شجرہ نسب کے مطابق، ملک کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کے دادا کا نام غیاث الدین غازی نہیں، بلکہ گانگا دھر نہرو تھا، جن کی شادی اندرانی عرف جیورانی سے ہوئی تھی۔ گانگا دھر نہرو کے پانچ بچے ہوئے، جن میں دو بیٹیاں اور تین بیٹے ہوئے۔ ان کے نام پٹرانی (بیوی۔ نندرانی) اور موتی لال نہرو (بیوی۔ سواروپ رانی) تھے۔

موتی لال نہرو اور سواروپ رانی کے تین بچوں: جواہر لال نہرو (بیوی۔ کملا نہرو)، سواروپ کماری یا وجے لکشمی (شوہر۔ رنجیت سیتارام پنڈت) اور کرشنا (شوہر۔ جے پی ہتھی سنگھ) ہیں۔


Jawaharlal Nehru with his mother Swarup Rani and father Motilal Nehru, 1894
ماں سواروپ رانی اور والد موتی لال نہرو کے ساتھ جواہر لال نہرو
(Nehru Memorial Museum & Library )

بنارس ہندو یونی ورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر راکیش پانڈے بتاتے ہیں، ’’نہرو کا مذہب ہندو تھا اور وہ ذات سے براہمن تھے۔ نہرو جب اپنی والدہ کی استھی کو ندی میں بہا رہے تھے، اس تصویر میں ان کے جسم پر جنیو (ہندووں میں پہنے جانے والا پاک دھاگا) کو پہنے دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ تصویر آن لائن موجود ہے۔ انڈیا ٹوڈے میگزین میں 6 مارچ 2006 کا شائع خبر میں اس تصویر کا استعمال کیا گیا ہے۔ خبر کی سرخی ہے
‘The Nehrus: Personal Histories’ by Mushirul Hasan & Priya Kapoor’

رپورٹ کے مطابق، جنیو پہنے نہرو کی یہ تصویر الہ آباد کی ہے، جب وہ اپنی والدہ کے آخری رسومات کی ادائیگی کر رہے تھے۔

نہرو نے اپنی سوانح حیات ’’میری کہانی‘‘ میں ایک ایسے قصہ کا ذکر کیا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے، ’’والد صاحب (موتی لال نہرو) کی یوروپ دورے نے کشمیری براہمنوں میں اندر ہی اندر ایک طوفان کھڑا کر دیا۔ یوروپ سے لوٹنے پر انہوں نےکسی قسم کا کفارہ ادا کرنے سے انکار کر دیا۔ کچھ سال قبل ایک دوسرے پنڈت بشن ناراین دھر، جو بعد میں کانگریس کے چیئرمین منتخب ہوئے تھے، برطانیہ گئے تھے اور وہاں سے بیرسٹر ہو کر آئے تھے۔ واپس آئے بےچارے نے کفارہ بھی ادا کر لیا، تو بھی پرانے خیال کے لوگوں نے ان کو برادری سے باہر کر دیا اور ان سے کسی قسم کا تعلق نہیں رکھا۔ بعد میں متعدد کشمیری نوجوان وکالت کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے غیر ملک گئے اور لوٹ کر سدھارک دل میں شامل ہو گئے، لیکن ان سب کو کفارہ ادا کرنا پڑا‘‘۔


نہرو کی سوانح حیات میری کہانی کا صفحہ

غور طلب ہے کہ اس وقت کے ہندو عقیدہ کے مطابق سمندر پار کرنے کو گناہ سمجھا جاتا تھا۔

اسی سوانح حیات میں کشمیری خاندان کے نام کے پہلے باب میں انہوں نے اپنے کشمیری ہو نے کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے، ’’ہم لوگ کشمیری ہیں۔200 سال سے زائد ہوں گے۔ 19ویں صدی کے آغاز میں ہمارے اباؤاجداد شہرت اور پیسہ کمانے کی نیت سے سمندر کے نیچے سے زرخیز میدانی علاقوں میں آئے تھے۔ وہ دن مغل سلطنت کے زوال کے دن تھے۔


نہرو کی سوانح حیات میری کہانی کا صفحہ

وزارت ثقافت کی ویب سائٹ پر دی گئی معلومات کے مطابق، ’کملا نہرو قدامت پسند کشمیری براہمن خاندان سے تعلق رکھتی تھیں، جبکہ نہرو کا طرز زندگی مغربی ثقافت سے متاثر تھا‘۔

جواہر لال نہرو اور کملا نہرو کی ایک بیٹی ہوئیں، جن کا نام اندرا گاندھی تھا اور وہ آگے چل کر ملک کی وزیر اعظم بنیں۔ اندرا گاندھی کی شادی فیروز گاندھی سے ہوئی۔

فیروز گاندھی کی مذہبی شناخت کو لے کر اکثر سوشل میڈیا پر پروپیگینڈا میسج وائرل ہوتے رہتے ہیں۔ حقیقت میں فیروز گاندھی پارسی تھے، نہ کہ مسلم اور فیروز اور اندر گاندھی کی شادی ہندو مذہب کے رسم و رواج سے ہوئی تھی۔

سلیکٹیڈ ورکس آف جواہر لال نہرو‘ میں شائع نہرو کا ایک خط ان کی ہندو شناخت کی تصدیق کرتا ہے۔ اندرا گاندھی اور فیروز گاندھی کی شادی کے معاملہ میں نہرو کی یہ کوشش تھی کہ شادی کے بعد بیٹی ہندو رہے اور دلہا پارسی۔ 16 مارچ 1942 کو ’لکشمی دھر‘ کو تحویل کئے گئے خط میں نہرو اپنی بیٹی اندرا گاندھی کی شادی کے دوران ہو رہی انہیں پیچیدگیوں کا ذکر کرتے ہیں۔

Source- Selected Works of Jawaharlal Nehru

وہ لکھتے ہیں، میں کل ہی یہاں (وردھا) پہنچا ہوں اور میں نے تقریب کے بارے میں مہاتمہ گاندھی سے بات کی ہے۔ مہاتمہ جی کا ماننا ہے کہ موجودہ حالات میں، جہاں تک ممکن ہو سکے، عام رسومات کی ادائیگی کی جانی چاہئے۔ غیر ضروری رسم کی ادائیگی کی ضرورت نہیں ہونی چاہئے۔ آپ جانتے ہیں کہ کئی وجوہات سے لوگ اس شادی کی مخالفت کر رہے ہیں۔ اس سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ حالاںکہ، اس کے بعد یہ ضروری ہو گیا ہے کہ جہاں تک ہو سکے، ہم چلے آرہے رسومات کے مطابق ہی کام کریں اور سیاسی کردار سے پرہیز رکیں۔ یہ منتر نہیں ہیں اور سبھی پرانے ویدک تقریب کے ہی ہیں‘‘۔


Source- Selected Works of Jawaharlal Nehru

دراصل، اندرا گاندھی کی شادی کے لئے مہاتمہ گاندھی نے منترو کو منتخب کیا تھا اور خط میں وہ ان باتوں کا تفصیل سے ذکر کرتے ہیں۔ وہ لکھتےہیں،’’گاندھی جی نے مجھے شادی کے طریقہ کے بارے میں تین چھوٹے پرچے دئے ہیں۔ ان میں کچھ نیا نہیں ہے، لیکن پھر بھی اسے آپ کے پاس بھیج رہا ہوں۔ اس کا کچھ حصہ، خاص طور پر شروعاتی غیر ضروری ہے‘‘۔

انہوں نے لکھا، ’’میں گاندھی جی کے نظریہ سے اس معاملہ پر آپ سے دوبارہ غور کرنے کی گزارش کرتا ہوں۔ اس میں ضروری چیزیں ہونی چاہئے اور غیر ضروری کو ہٹا دیا جانا چاہئے۔ جیسا آپ نے مجھے لکھا، میں امید کرتا ہوں کہ شادی کی تقریب سنسکرت اور ہندی میں ہوگی‘‘۔

ہندو رسم و رواج کے ساتھ ہوئی اندرا گاندھی کی شادی کی تصویر
(Image-Nehru Memorial Museum & Library )

راکیش پانڈے نے کہا، ’’نہرو کی شناخت ہندو تھی اور جس ہندو مذہب کی وکالت کرتے تھے، وہ اس میں شامل تھے۔ حالاںکہ، اسی نظریہ کے برعکس اس ملک میں تنگ ہندوتوا کا نظریہ بھی چلتا آرہا ہے۔ تنگ ہندو نظریہ اور اس کے حامی نہرو کے جامع ہندو فلسفے کو مسترد نہیں کرسکتے ہیں ، لہذا وہ وقتا فوقتا اسے بدنام کرتے رہتے ہیں۔ یہ ایک سیاسی حملہ ہے‘‘۔

نتیجہ: جواہر لال نہرو اور ان کے آباواجداد مسلم نہیں تھے۔ نہرو ہندو اور کشمیری براہمن تھے۔ سوشل میڈیا پر نہرو خاندان کے نام پر وائرل ہو رہا شجرہ نسب فرضی ہے، جسے غلط تشہیر کے مقصد سے فیلایا جا رہا ہے۔

  • Claim Review : مسلمان تھے نہرو اور ان کے آباواجداد
  • Claimed By : FB User- Jitendra Jain
  • Fact Check : جھوٹ‎
جھوٹ‎
فرضی خبروں کی نوعیت کو بتانے والے علامت
  • سچ
  • گمراہ کن
  • جھوٹ‎

مکمل حقیقت جانیں... کسی معلومات یا افواہ پر شک ہو تو ہمیں بتائیں

سب کو بتائیں، سچ جاننا آپ کا حق ہے۔ اگر آپ کو ایسے کسی بھی میسج یا افواہ پر شبہ ہے جس کا اثر معاشرے، ملک یا آپ پر ہو سکتا ہے تو ہمیں بتائیں۔ آپ نیچے دئے گئے کسی بھی ذرائع ابلاغ کے ذریعہ معلومات بھیج سکتے ہیں۔

ٹیگز

اپنی راے دیں

No more pages to load

متعلقہ مضامین

Next pageNext pageNext page

Post saved! You can read it later