نئی دہلی (وشواس نیوز)۔ سوشل میڈیا پر آج کل ایک تصویر وائرل ہو رہی ہے، جس میں 4 لوگوں کی تصویر کے ساتھ کیپشن لکھا ہے،’’چاند، عثمان، اظہر اور صاحب نے 15 سال کی ہندو بچی کی اس کی بوڑھی دادی کے سامنے عصمت دری کی- میرٹھ‘‘۔ ہم نے اپنی پڑتال میں پایا کہ یہ خبر پوری طرح صحیح نہیں ہے۔ 28 ستمبر کو میرٹھ کے بھاون پور میں ایک 15 سالہ نابالغہ کی عصمت دری کا معاملہ سامنے آیا تھا لیکن ڈی ایس پی اکھیلیش بھدوریہ کے مطابق، متاثرہ اور ملزم سبھی ایک ہی مذہب کے تھے۔ معاملہ فرقہ وارانہ نہیں تھا۔ وائرل ہو رہی تصویر بھی ملزمان کی نہیں ہے۔
وائرل پوسٹ میں 4 لوگوں کی تصویر کے ساتھ ایک کیپشن لکھا ہے، ’’چاند، عثمان، اظہر اور صاحب نے 15 سال کی ہندو بچی کے ساتھ اس کی بوڑھی دادی کے سامنے عصمت دری کی- میرٹھ‘‘۔ تصویر میں نظر آرہے لوگ عمر دراز نظر آرہے ہیں۔ پوسٹ کو وویک سنگھ نام کے صارف نے 11 اکتوبر کے روز شائع کیا ہے۔
اس پوسٹ کی پڑتال کے لئے ہم نے سب سے پہلے وائرل خبر میں استعمال تصاویر کو گوگل رورس امیج پر سرچ کیا۔ سرچ میں ہمیں یہ تصویر ڈریمس ٹائم ڈاٹ کام ویب سائٹ پر ملی۔ امریکہ کی ایک آئن لائن رایلٹی فری مائیکرو اسٹاک کمپنی ہے۔ یہ ایک مشہور اسٹاک فوٹوگرافی کمپنی ہے۔ اسی ویب سائٹ پر موجود اس تصویر کے ساتھ کیپشن لکھا تھا
Muslim men standing at Jama Masjid in Delhi, India
جس کا اردو میں ترجمہ کچھ اس طرح ہوتا ہے، ’’ہندوستان کے دہلی میں جامع مسجد میں کھڑے مسلمان بزرگ‘‘۔
اس کے بعد ہم نے اس خبر کو گوگل رورس امیج پر متعلقہ کی ورڈ کے ساتھ ڈھونڈا۔ ہمیں یہ خبر این ڈی ٹی وی اور نوبھارت ٹائمس کی ویب سائٹ پر ملی۔ دونوں ہی خبروں میں متاثرہ یا ملزمین کے نام نہیں تھے۔
ہم نے مزید تصدیق کے لئے بھاون پور علاقہ کے ڈی ایس پی اکھیلیش بھدوریہ سے بات کی جنہوں نے کہا، ’’یہ خبر پوری صحیح نہیں ہے۔ عصمت دری کے چاروں ملزمین کو حراست میں لیا گیا ہے‘‘۔
معاملہ کو پوری طرح جاننے کے لئے ہم نے بھاون پور پولیس اسٹیشن کے ایس ایچ او سنجے کمار سے بات کی جہوں نے ہمیں بتایا، ’’وائرل تصویر میں دکھ رہے چاروں ملزمین تھانہ بھان پور جنپد میرٹھ کے مقدمہ سے متعلق نہیں ہیں۔ وائرل ہو رہی تصویر فرضی ہے۔ اس میں موجود لوگوں کا اس معاملہ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ معاملہ میں چاروں ملزمین کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ چاروں کے نام چاند، عثمان، اظہر اثر صاحب ہیں۔ ایک ملزم نابالغ ہے اور باقی کے تینوں کی عمر 18 سے 20 کے بیچ ہے۔ معاملہ فرقہ وارانہ نہیں تھا۔ متاثرہ اور ملزم سبھی ایک ہی برادری سے ہی ہیں‘‘۔
اب باری تھی اس پوسٹ کو فرضی حوالے کے ساتھ سوشل میڈیا پر وائرل کرنے والے فیس بک صارف وویک سنگھ کی سوشل اسکیننگ کرنے کی۔ ہم نے پایا کہ اس پروفائل سے ایک مخصوص آئڈیولاجی جی جانب متوجہ پوسٹ شیئر کی جاتی ہیں۔
نتیجہ: ہم نے اپنی پڑتال میں پایا کہ یہ خبر پوری طرح صحیح نہیں ہے۔ 28 ستمبر کو میرٹھ کے بھاون پور میں ایک 15 سال کی نابالغہ کے ساتھ زیادتی کرنے والے بھی اسی کی برادری کے تھے۔ معاملہ فرقہ وارانہ نہیں تھا۔ وائرل ہو رہی تصویر میں موجود لوگ بےقصور ہیں، کہیں اور کی تصویر کو گمراہ کن حوالے کے ساتھ وائرل کیا جا رہا ہے۔
اگر آپ کو ایسی کسی بھی خبر پر شک ہے جس کا اثر آپ کے معاشرے اور ملک پر پڑ سکتا ہے تو ہمیں بتائیں۔ ہمیں یہاں جانکاری بھیج سکتے ہیں۔ آپ ہم سے ای میل کے ذریعہ رابطہ کر سکتے ہیں contact@vishvasnews.com
اس کے ساتھ ہی واٹس ایپ (نمبر9205270923 ) کے ذریعہ بھی اطلاع دے سکتے ہیں