فیکٹ چیک: 2017 میں لکھنئو کے مدرسہ میں ہوئے استحصال کا معاملہ دوبارہ ہوا وائرل

نئی دہلی (وشواس نیوز)۔ سوشل میڈیا پر ایک اخبار کی کٹنگ وائرل ہو رہی ہے، جس میں مدرسہ کے ہاسٹل میں ہو رہے جنسی استحصال کا شکار ہوئیں 52 طالبات کو آزاد کرانے کی بات کہی جا رہی ہے۔ علاوہ ازیں، صارفین دعویٰ کر رہے ہیں کہ یہ معاملہ گزشتہ روز کا ہے، لیکن میڈیا اسے نہیں دکھا رہی ہے۔ وشواس ٹیم کی پڑتال میں یہ دعویٰ گمراہ کن ثابت ہوتا ہے۔ مذکورہ معاملہ دسمبر 2017 کا لکھنئو کا ہے اور اس وقت اس معاملہ کو میڈیا کوریج ملی تھی۔ اتنا ہی نہیں، معاملہ زیر کاروائی بھی ہے۔

کیا ہے وائرل پوسٹ میں

فیس بک صارف آشو سنگھ نے 24 ستمبر کو ایک پوسٹ اپ لوڈ کی، جس میں ایک پیپر کٹنگ کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اخبار میں خبر کی سرخی ہے، ’’مدرسہ میں جنسی استحصال، مولوی گرفتار، 25 طالبات چھڑائی گئیں‘‘۔ اس پوسٹ کے ساتھ صارف نے کیپشن لکھا ہے، ’’میڈیا کو چنمیانند سے فرست مل گئی ہو تو یہ خبر بھی بتانے کی زحمت کریں۔ ایک نہیں، دو نہیں، پورے 52 لڑکیوں کا معاملہ ہے وہ بھی 8 سے 18 کی عمر کی‘‘۔

ہم نے غور کیا کہ اخبار میں دی گئی خبر کے مطابق، یہ معاملہ لکھنئو کا ہے اور یہ وہیں کا مقامی اخبار ہے۔ سب سے پہلے اخبار میں دی گئی تصویر کا ہم نے رورس امیج سرچ کیا۔

اس سرچ میں ہمارے ہاتھ 30 دسمبر 2017 کو امر اجالا کے ویب ایڈیشن میں اپ لوڈ ہوئی ایک خبر ملی۔ اس خبر میں اسی تصویر کو دیکھا جا سکتا ہے۔ جو وائرل پیپر کٹنگ میں ہے۔

اب ہم نے امر اجالا کے لکھنئو ایڈیشن کے ای پیپر میں 30 دسمبر 2017 میں اس وائرل خبر کو تلاش کیا اور ہمیں یہ خبر ملی۔

حالاںکہ، غور کرنے والی بات یہ تھی کہ وائرل کٹنگ میں مولوی گرفتار لکھا نظر آرہا ہے اور اصل پیپر میں مینیجر گرفتار لکھا ہوا ہے۔

اب ہمیں یہ جاننا تھا کہ پورا معاملہ کیا ہے۔ نیوز سرچ میں ہمیں 30 دسمبر 2017 دینک جانگر میں شائع ایک خبر ملی۔ خبر کی سرخی تھی، ’’مدرسہ میں جنسی استحصل کرنے والا مینیجر پکڑا گیا‘‘۔ خبر کے مطابق، ’’لکھنئو کے سعادت گنج واقع مدرسہ جامعہ خدیجتہ الکبری للبنات میں طالبات کے جنسی استحصال کا پولیس نے پردہ شاف کیا ہے۔ ایس یس پی دیپک کمار کے مطابق، مدرسہ کے اندر ہاسٹل میں رہنے والی طالبات کے جنسی استحصال کی شکایت ملی تھی۔ معاملہ کی سنجیدگی کے مدنظر ہفتہ کی رات وہاں چھاپے ماری کی گئی۔ اس دوران طالبات نے بھی خط کے ذریعہ پولیس کو اس کی شکایت کی، جس کے بعد ملزم مینیجر قاری طیب زیا کو گرفتار کر لیا گیا‘‘۔ مکمل خبر یہاں پڑھ سکتے ہیں۔

اپنی خبر کو پختہ کرنے کے لئے ہم نے سعادت گنج کے ایس ایچ او مہیش پال سنگھ سے بات کی اور انہوں نے بتایا، ’’یہ 2017 کا کیس ہے جب یاسین گنج کے مدرسہ جامعہ خدیجتہ الکبری میں 52 طالبات کے جنسی استحصال کا معامل سامنے آیا تھا اور ہاسٹل کے مینیجر کے خلاف پولیس تھانے کی جانب سے پاسکو ایکٹ سمیت 3 مقدمہ بھی چل رہے ہیں۔ اس معاملہ پر 22، 10 اور 19 تاریخ کو عدالت میں سماعت بھی ہے اور فی الحال ملزم زمانت پر ہے‘‘۔

اب باری تھی اس پوسٹ کو فرضی حوالے کے ساتھ وائرل کرنے والی فیس بک صارف آشو سنگھ کی سوشل اسکیننگ کرنے کی۔ ہم نے پایا کہ اس صارف کو 10,531 لوگ فالوو کرتے ہیں۔ وہیں اس پروفائل سے ایک مخصوص پارٹی کی حمایت میں پوسٹ کی جاتی ہیں۔

نتیجہ: وشواس نیوز کی پڑتال میں وائرل ہو رہی پیپر کٹنگ کی خبر گمراہ کن ثابت ہوتی ہے۔ یہ معاملہ لکھئنو میں دسمبر 2017 میں مدرسہ کے ہاسٹل میں ہوئے جنسی استحصال کا ہے جس پر کاروائی چل رہی ہے۔

False
Symbols that define nature of fake news
مکمل سچ جانیں...

اگر آپ کو ایسی کسی بھی خبر پر شک ہے جس کا اثر آپ کے معاشرے اور ملک پر پڑ سکتا ہے تو ہمیں بتائیں۔ ہمیں یہاں جانکاری بھیج سکتے ہیں۔ آپ ہم سے ای میل کے ذریعہ رابطہ کر سکتے ہیں contact@vishvasnews.com
اس کے ساتھ ہی واٹس ایپ (نمبر9205270923 ) کے ذریعہ بھی اطلاع دے سکتے ہیں

Related Posts
Recent Posts