وشواس نیوز نے اپنی پڑتال میں پایا کہ ان لوگوں نے بیٹھ کر کھانا دئے جانے کا مطالبہ کیا تھا، جس کو کھانا بنانے والی خاتون نے سوشل ڈسٹینسنگ کو فالوو کرتے ہوئے منع کر دیا اور کھانا ٹیبل پر رکھ دیا۔ اس بات پر ناراض ان لوگوں نے کھانے کی ٹیبل پر لات مار دی۔ اس معاملہ کو غلط فرقہ وارانہ اینگل دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مذکورہ معاملہ میں کوئی دلت اینگل نہیں تھا۔
نئی دہلی (وشواس نیوز)۔ آج کل ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر شیئر کیا جا رہا ہے، جس میں 2 لوگوں کی چینتے اور ایک کھانے کی ٹیبل پر پیر لات مارتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ ویڈیو کے ساتھ لکھے کیپشن میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ یہ لوگ مہاجر مزدور ہیں، جنہوں نے آئسولیشن سنٹر میں کھانے کی ٹیبل پر اسلئے لات ماری، کیوں کہ اس کھانے کو ایک دلت خاتون نے بنایا تھا۔
اس ویڈیو کو جب چیک کیا گیا تو وشواس نیوز نے پایا کہ ان لوگوں نے بیٹھ کر کھانا دئے جانے کا مطالبہ کیا تھا، جس کو کھانا بنانے والی خاتون نے سوشل ڈسٹینسنگ کو مانتے ہوئے انکار کر دیا اور کھانا ٹیبل پر رکھ دیا۔ اس بات پر ناراض مزدور ان دونوں نے کی ٹیبل پر لات مار دی۔ اس معاملہ کو ذات سے جوڑ کر غلط رنگ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
ویڈیو میں 2 لوگوں کو چینختے اور ایک کھانے کی ٹیبل پر لات مارتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ ویڈیو کے ساتھ دی گئی ففصیل میں لکھا ہے
‘‘Food cooked by a Dalit cook was refused by a patient in Quarantine. The patient kicks the food to save his honor. Extremely shameful and disgusting.”
اردو ترجمہ: ’’دلت باورچی کے ذریعہ پکایا گیا کھانا کوارنٹائن میں ایک مریض نے کھانے سے انکار کر دیا اور کھانے کو لات مار دی۔ بےحد شرم ناک اور مکروہ‘‘۔
پوسٹ کا آرکائیو ورژن یہاں دیکھیں۔
اس ویڈیو کو ان ویڈ ٹول پر ڈالنے پر ہمیں فریم میں ایک دیوار پر لکھے اسکول کے نام کے ساتھ ’مدھواپور‘ لکھا ہوا نظر آیا۔
درست کی ورڈ کے ساتھ تلاش کرنے پر ہمیں پتہ چلا کہ ویڈیو بہار کے مدھوبنی ضلع کا ہے، جہاں مدھوا پور بلاک کے ایک اسکول کو آئسولیشن سنٹر میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔
سرچ کرنے پر ہمیں دینک جاگرن کی ایک رپورٹ ملی جس کی سرخی میں لکھا تھا ’ویڈیو: بہار کے مدھوبنی میں لوگوں نے کھانے میں ماری لات، خاتون باورچی سے کی بدسلوکی‘۔ اس خبر کو 18 مئی 2020 کو شائع کیا گیا تھا۔ اس خبر میں مزید بتایا گیا کہ، ’مڈل اسکول سحرگھاٹ کوارنٹائن سنٹر میں 25 مہاجر مزدور کوارنٹائن میں ہیں۔ ایم ڈی ایم کے باورچی کے ذریعہ ان مہاجر مزدوروں کو کھانا کھلایا جاتا ہے۔ پیر کے روز دپہر کے وقت خاتون باورچی نے پلیٹ میں کھانا نکال کر بینچ پر رکھ دیا۔ لیکن مہاجر مزدوروں میں سے کچھ نے سوشل ڈسٹینسنگ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بیٹھ کر کھانا کھلانے کا مطالبہ کیا۔ باورچی کے ذریعہ انکار کئے جانے پر مزدوروں نے بینچ پر رکھے کھانے کو پیر سے لات مار کر گرا گیا۔ خاتون باورچی کے ساتھ بدسلوکی کرنے لگے‘۔ خبر میں اس متنازعہ کی وجہ بیٹھ کر کھانا نہ کھلانا تھا۔ خبر میں کہیں بھی کوئی فرقہ وارانہ اینگل کا ذکر نہیں تھا۔
حالاںکہ کچھ خبروں میں کہا گیا کہ مزدوروں نے کھانے پر لات کھانے کی خراب کوالیٹی کے سبب ماتی تھی۔
مذکورہ معاملہ میں ہم نے مدھوا پور کے بی ڈی او ویبھو کمار سے فون پر بات کی۔ انہوں نے کہا، ’اس معاملہ میں ابتدائی کاروائی کی جا چکی ہے۔ معاملہ اب سب جوڈیششیئل ہے۔ معاملہ میں پولیس کی جانچ چل رہی ہے‘‘۔
مزید تصدیق کے لئے ہم نے سہار گھاٹ پولیس اسٹیشن کے ایس ایچ او سوریندر پاس وان سے رابطہ کیا۔ انہوں نے ہمیں بتایا، ’اس معاملہ میں کوئی دلت اینگل نہیں تھا۔ کچھ لوگ چاہتے تھے کہ انہیں ٹینل پر کھانا نہیں کھلایا جائے۔ وہ چاہتے تھے کہ باورچی انہیں بیٹھائے اور کھلائے۔ جب باورچی نے انکار کر دیا تو ہنگامہ ہوا اور مہاجر مزدوروں نے کھانے کو لات مار دی۔ معاملہ میں شکایت درج کی گئی ہے۔ کھانے کی کوالیٹی کو لے کر شکایت نہیں کی گئی ہے‘‘۔
اب باری تھی اس ویڈیو کو فرضی دعوی کےساتھ وائرل کرنے والے فیس بک پیج ’دا ٹرتھ بہانڈ‘ کی سوشل اسکیننگ کرنے کی۔ ہم نے پایا کہ اس پیج کو 408 صارفین فالوو کرتے ہیں۔
نتیجہ: وشواس نیوز نے اپنی پڑتال میں پایا کہ ان لوگوں نے بیٹھ کر کھانا دئے جانے کا مطالبہ کیا تھا، جس کو کھانا بنانے والی خاتون نے سوشل ڈسٹینسنگ کو فالوو کرتے ہوئے منع کر دیا اور کھانا ٹیبل پر رکھ دیا۔ اس بات پر ناراض ان لوگوں نے کھانے کی ٹیبل پر لات مار دی۔ اس معاملہ کو غلط فرقہ وارانہ اینگل دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مذکورہ معاملہ میں کوئی دلت اینگل نہیں تھا۔
اگر آپ کو ایسی کسی بھی خبر پر شک ہے جس کا اثر آپ کے معاشرے اور ملک پر پڑ سکتا ہے تو ہمیں بتائیں۔ ہمیں یہاں جانکاری بھیج سکتے ہیں۔ آپ ہم سے ای میل کے ذریعہ رابطہ کر سکتے ہیں contact@vishvasnews.com
اس کے ساتھ ہی واٹس ایپ (نمبر9205270923 ) کے ذریعہ بھی اطلاع دے سکتے ہیں