فیکٹ چیک: روہنگیا مسلمانوں اور کشمیری پنڈتوں پر وائرل ہو رہی پوسٹ گمرہ کن
- By: Umam Noor
- Published: Jul 16, 2019 at 03:14 PM
نئی دہلی (وشواس نیوز)۔ سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ وائرل ہو رہی ہے، جس میں دو الگ- الگ معاملوں کا حوالہ دیتے ہوئے سپریم کورٹ کے مبینہ دوہرہ رویہ کو لے کر تنقید کی گئی ہے۔ پوسٹ میں کہا گیا ہے، ’’آخر اس ملک کی اعلیٰ ترین عدالت سپریم کورٹ ہے یا شریعہ کورٹ‘‘۔
وشواس ٹیم کی پڑتال میں یہ پوسٹ گمراہ کرنے والی ثابت ہوتی ہے، جس میں تمام حوالوں کو غلط تناظر کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔
کیا ہے فیس بک پوسٹ میں؟
فیس بک پر شیئر کئے گئے پوسٹ میں دو الگ- الگ معاملوں کا ذکر ہے۔ پہلا معاملہ روہنگیا مسلمانوں اور دوسرا معاملہ کشمیری پنڈتوں کی ہجرت کا ہے۔
پڑتال کئے جانے تک اس پوسٹ کو 1000 سے زائد مرتبہ شیئر کیا جا چکا ہے، تاہم 1600 سے زیادہ لوگوں نے اسے لائک کیا ہے۔
پڑتال
حالاںکہ پوسٹ میں دو معاملے تھے، اسلئے ہم نے اس دعویٰ کی الگ- الگ پڑتال کی۔ پہلا معاملہ روہنگا مسلمانوں کو لے کر ہے۔ پوسٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے، ’’دو رہنگیاؤں نے 40,000 پناہ گزینوں کو میانمار لے جانے کے خلاف دائر کی عرضی۔ سپریم کورٹ کرے گا سماعت‘‘۔
نیوز ایجنسی پی ٹی آئی کی خبر کے مطابق، مرکزی حکومت نے غیر قانونی طور سے ہندوستان میں رہ رہے رہنگیاؤں کو میانمار بھیجنے کا فیصلہ لیا ہے، جس کے خلاف دی گئی عرضی پر سپریم کورٹ اگست میں سماعت کرےگا۔
خبر کے مطابق، میانمار سے بھاگ کر آئے تقریبا 40,000 روہنگیا مسلمان جموں، حیدرآباد، ہریانہ، اترپردیش، دہلی این سی آئی اور راجستھان میں رہ رہے ہیں، جنہیں حکومت نے واپس ان کے وطن بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔
حکومت کے اسی فیصلہ کے خلاف دو روہنگیا مسلمان محمد سلمیم اللہ اور محمد شاکر نے 2017 میں سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ دونوں ہی روہنگیا مسلمانوں کو اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین (یو این ایس سی آر) کے تحت پناہ گزین کا درجہ ملا ہوا ہے۔
رواں ماہ کی 9 تاریخ کو ہوئی سماعت میں سپریم کورٹ حکومت کے فیصلہ پر غور کرنے کے لئے تیار ہو گیا، جس میں کہا گیا ہے، ’’پہلے یہ طے کیا جائے کہ وہ (روہنگیا) پناہ گزین ہیں یا نہیں۔ کیا غیر قانونی طور سے آنے والے کو پناہ گزین کا درجہ دیا جا سکتا ہے…یہ ایک اہم سوال ہے‘‘۔ منٹ میں شائع خبر کے مطابق، سالیسیٹر جنرل تشار مہتا کی اس دلیل پر غور کرتے ہوئے عدالت نے کہا کہ وہ اس ’اہم سوال‘ پر غور کرے گی۔
واضح رہے کہ اکتوبر 2018 میں سات روہنگیا مسلمانوں کو میانمار واپس بھیجا جا چکا ہے، جو ہندوستان میں غیر قانونی طور سے رہ رہے تھے۔ نیوز ایجنسی رائیٹرس کی خبر کے مطابق، سپریم کورٹ نے بھی ان سات روہنگیا مسلمانوں کو واپس بھیجنے سے انکار کر دیا تھا۔ چیف جسٹس رنجن گوگوئی نے یہ کہتے ہوئے عرضی کو خارج کر دیا تھا، ’’ہم مرکز کے فیصلہ میں دخل نہیں دیتے‘‘۔
پوسٹ میں دوسرا دعویٰ کشمیری پنڈتوں کی عرضی کو لے کر ہے۔ کہا گیا ہے، ’’جبکہ گزشتہ روز کشمیری پنڈتوں کے ہجرت کی عرضی کو یہ کہہ کر موخر کر دیا تھا کہ ’یہ کافی پرانا مدعا ہے‘‘۔
نیوز سرچ میں ہمیں پتہ چلا کہ یہ معاملہ بھی تقریبا دو سال پرانا ہے، جب جون 2017 میں ’روٹس ان کشمیر‘ کی عرضی کو خارج کر دیا تھا۔ عدالت نے کہا، ’’ہم ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 32 کے تحت اس عرضی کو خارج کرتے ہیں کیوں کہ جو عرضی پیش کی گئی ہے، وہ سال 90۔1989 سے جڑی ہوئی ہے، جو 27 سال پرانا ہے۔ اس وقت کوئی ثبوت ملنے کی امید نہ کے برابر ہے اور ایسا کرنے کے کوئی معنیٰ نہیں ہوں گے‘‘۔
عدالت نے کہا، ’’یہ دل دہلانے والا معاملہ ہے… لیکن آپ اس معاملہ کو لے کر گزشتہ 27 سالوں تک خاموش رہے۔ اب آپ ہمیں بتائیں کہ ثبوت کہاں سے آئےگا‘‘۔
اسے لے کر جب ہم نے سشیل پنڈت سے رابطہ کیا تو انہوں بتایا 1990 کے دہائی میں کشمیر میں پنڈتوں کے قتل، لوٹ اور عصمت دری کے سیکڑوں معاملوں کی جانچ کو لے کر عرضی دائر کی گئی تھی۔ انہوں نے بتایا، ’’ہم نے ان معاملوں کی جانچ کے لئے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا، جس میں ایف آئی آر درج کی گئی ہے اور جن لوگوں کو نامزد کیا گیا ہے، ان کے خلاف آج تک کوئی کاروائی نہیں ہوئی‘‘۔
سشیل پنڈت نے کہا، ’’ہجرت کوئی جرم نہیں ہے۔ عرضی کشمیری پنڈتوں کے نسل کشی سے متعلق معاملات کی جانچ کو لے کر تھی، جس کی وجہ کشمیر سے بڑے پیمانے پر کشمیری پنڈتوں کی ہجرت ہوئی تھی‘‘۔
انہوں نے ہمیں بتایا کہ عرضی کے خارج ہونے کے بعد اکتوبر 2017 میں ہم نے پھر سے نظر ثانی عرضی داخل کی تھی، لیکن وہ بھی قبول نہیں ہو پائی۔
نیوز رپورٹ سے اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ رپورٹ کے خلاف، ’’سپریم کورٹ نے 1990 کی دہائی میں جموں و کشمیر میں 700 سے زیادہ پنڈتوں کے قتل سے متعلق 215 معاملوں کی پھر سے جانچ کئے جانے کی عرض کو نامنضور کر دیا۔ عرضی دائر کرنے والوں نے یاسین ملک اور بٹا کراٹے کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرائے جانے کا مطالبہ کیا تھا‘‘۔
نتیجہ: روہنیگا اور کشمیری پنڈتوں کو لے کر وائرل ہو رہا پوسٹ گمراہ کرنے والا ہے۔ سپریم کورٹ میں 1990 کی دہائی میں پنڈتوں کے قتل معاملہ میں پھر سے جانچ کے لئے عرضی داخل کی گئی تھی، جسے عدالت عظمیٰ نے ناکافی ثبوت کی بنیاد پر جانچ سے انکار کر دیا تھا، وہیں 7 روہنگیا مسلمانوں کو میانمار بھیجے جانے سے حکومت کے فیصلہ میں سپریم کورٹ نے دخل دینے سے انکار کر چکا ہے۔ حالاںکہ، دو روہنگیا پناہ گزینوں کی جانب سے دائر کی گئی عرضی پر ابھی بھی سپریم کورٹ میں سماعت چل رہی ہے، جو ہندوستان میں غیر قانونی طور سے رہ رہے روہنگیا مہاجرین کو ان کے ملک میانمار بھیجے جانے کے مرکزی حکومت کے فیصلہ کے خلاف کی گئی اپیل ہے۔
مکمل سچ جانیں…سب کو بتائیں
اگر آپ کو ایسی کسی بھی خبر پر شک ہے جس کا اثر آپ کے معاشرے اور ملک پر پڑ سکتا ہے تو ہمیں بتائیں۔ ہمیں یہاں جانکاری بھیج سکتے ہیں۔ آپ ہم سے ای میل کے ذریعہ رابطہ کر سکتے ہیں
contact@vishvasnews.com
اس کے ساتھ ہی واٹس ایپ (نمبر9205270923 ) کے ذریعہ بھی اطلاع دے سکتے ہیں۔
- Claim Review : کشمیری پنڈت اور روہنگیا پر سپریم کورٹ کا دوہرا رویہ
- Claimed By : FB User-Bharat Positive
- Fact Check : گمراہ کن