نئی دہلی (وشواس نیوز)۔ دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ہوئے احتجاج کے بعد سے ہی فیس بک، واٹس ایپ، ٹویٹر اور سوشل میڈیا کے دوسرے پلیٹ فارمس پر کچھ افواہیں اڑ رہی ہیں۔ انہیں میں ایک تصویر زبردست شیئر کی جا رہی ہے۔ تصویر میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ پولیس کی جوابی کاروائی کے دوران شاکر نام کے طالب علم کی موت ہو گئی ہے۔ وشواس ٹیم نے اس دعویٰ کی پڑتال کی تو ہم نے پایا کہ ہر جگہ زور شور سے وائرل کیا جا رہا دعویٰ فرضی ہے۔ شاکر کی موت نہیں ہوئی ہے، وہ محض زخمی ہے اور ایمس کے ٹراما سینٹر میں داخل ہے، جہاں اس کا علاج چل رہا ہے۔
فیس بک صارف ’زیشان عقیل‘ کی جانب سے ایک تصویر شیئر کی گئی ہے جس میں ایک نوجوان کو زخمی حالت میں دیکھا جا سکتا ہے۔ فوٹو کے ساتھ کیپشن میں لکھا ہے
”JMI student name shakir from kota Rajasthan is no more due to violent attack of Delhi police.. #RIP# #saluteman# #shameondelhipolice# #rejectCAB# #rejectNRC# #saynotoCAB#”.
اس پوسٹ کو سوشل میڈیا پر ملتے جلتے دعوے کے متعدد صارفین شیئر کر رہے ہیں۔
تفتیش میں ہم نے پایا کہ اس معاملہ سے منسلک ایک 7 سیکنڈ کا ویڈیو بھی وائرل ہو رہا ہے۔
وائرل کئے جا رہے دعویٰ کی تفتیش کرنے کے لئے یہ جاننا ضروری تھا کہ کیا جامعہ احتجاج اور پولیس کی کاروائی میں کسی طلبا کی موت ہوئی ہے۔ اس کے لئے ہم نے سب سے پہلے معاملہ سے متعلق نیوز سرچ کیا۔ اس دوران اے این آئی کا ایک ٹویٹ ملا، جس میں جمعہ ملیا اسلامیہ کی وائس چانسلر نجما اختر کا اسٹوڈینٹ ڈیتھ پر دیا گیا بیان تھا۔ انہوں نے واضح طور پر کہا ہے کہ جامعہ میں دو طلبات کے موت کی افواہ اڑائی جا رہی ہے جو بالکل فرضی ہے۔ پوری خبر اے این آئی نیوز ڈاٹ ان پر بھی ملی۔ خبر یہاں پڑھیں۔
معاملہ کی پختہ تصدیق کے لئے ہم نے جامعہ نگر پولیس اسٹیشن کے ایس ایچ او اپیندر سنگھ سے بھی رابطہ کیا اور انہوں نے بھی بتایا کہ کچھ طلبا زخمی تو ہیں، لیکن موت کی خبر افواہ ہے۔
شاکر نام کے طالب علم کی موت سے متعلق افواہ کی حقیقت جاننے کے لئے ہم نے محمد ریاض سے رابطہ کیا۔ ریاض ایک صحافی اور جے ایم آئی کے سابق طالب علم ہیں۔ جامعہ مظاہرہ کے دوران ان کے صحافی گروپ نے بڑھ چڑھ کر طلبا کی مدد کی تھی اور پھر اڑ رہی تمام افواہوں کی حقیقت کا بھی پتہ لگایا تھا۔ ریاض نے اپنے فیس بک اکاونٹ کے ذریعہ شاکر کی موت کو افواہ قرار دیتے ہوئے ایک پوسٹ لکھی تھی۔
وشواس نیوز نے محمد ریاض سے جب بات کی تو انہوں نے تفصیل سے بتایا، ’’پولیس کی کاروائی کے دوران شاکر کے ہلاک ہونے کی خبر پوری طرح سے افواہ ہے۔ شاکر زخمی ہوا ہے اور وہ ایمس کے ٹراما سینٹر میں داخل ہے‘‘۔ انہوں نے مزید بتایا کہ، ’’شاکر سے منسلک پوسٹ اتوار کے روز سے وائرل ہو رہی ہیں۔ ہماری ٹیم کو دعویٰ پر شبہ ہوا تو ہم سب نے سچائی کا پتہ لگایا اور ہمیں معلوم ہوا کہ شاکر ایمس کے ٹراما سینٹر میں داخل ہے‘‘۔
شاکر حیات ہے اور اس معاملہ کی تصدیق کے لئے ہم نے ایمس ٹراما سینٹر کے ہیڈ ڈاکٹر راجیش ملہوترا سے 17 دسمبر کو بات کی اور انہوں نے بتایا، ’’شاکر کے نام سے افواہ اڑائی جا رہی ہے وہ غلط ہے۔ شاکر ابھی اسپتال میں ہے اور اس کا علاج چل رہا ہے‘‘۔
اب باری تھی اس پوسٹ کو فیس بک پر وائرل کرنے والے فیس بک صارف ’زیشان ’عقیل‘ کی سوشل اسکیننگ کرنے کی۔ ہم نے پایا کہ اس صارف کا تعلق الہ آباد سے ہے اور اس پروفائل سے جامعہ مظاہرہ کی حماعت میں متعدد پوسٹ شیئر کی گئی ہیں۔
نتیجہ: وشواس ٹیم نے اپنی تفتیش میں پایا کہ جامعہ مظاہرہ میں شاکر نام کے طالب علم کی موت نہیں ہوئی ہے۔ حالاںکہ، وہ ایمس کے ٹراما سینٹر میں داخل ہیں۔ سوشل میڈیا پر وائرل کیا جا رہا درعویٰ پوری طرح سے فرضی ہے۔
اگر آپ کو ایسی کسی بھی خبر پر شک ہے جس کا اثر آپ کے معاشرے اور ملک پر پڑ سکتا ہے تو ہمیں بتائیں۔ ہمیں یہاں جانکاری بھیج سکتے ہیں۔ آپ ہم سے ای میل کے ذریعہ رابطہ کر سکتے ہیں contact@vishvasnews.com
اس کے ساتھ ہی واٹس ایپ (نمبر9205270923 ) کے ذریعہ بھی اطلاع دے سکتے ہیں