فیکٹ چیک: جاپان سے نہیں خریدے جاتے ہیں ای وی ایم، فرضی دعویٰ ہو رہا ہے وائرل

نئی دہلی (وشواس ٹیم)۔ لوک سبھا انتخابات 2019 کے مکمل ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ وائرل ہو رہی ہے، جس میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ہندوستان میں الیکشن کے دوران جس ای وی ایم کا استعمال کیا جاتا ہے، اسے جاپان سے خریدہ جاتا ہے۔ اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جاپان ہندوستان کو ای وی ایم بیچتا ہے، لیکن اپنے یہاں وہ الیکشن بیلٹ پیپر سے کراتا ہے۔

وشواس نیوز کی پڑتال میں یہ دعویٰ فرضی ثابت ہوتا ہے۔ ہندوستان میں لوک سبھا الیکشن کے دوران جس ای وی ایم کا استعمال کیا جاتا ہے، وہ کسی اور ملک سے نہیں خریدہ جاتا، بلکہ اسے ملک کی دو سرکاری کمپنیاں بناتی ہیں۔

کیا ہے وائرل پوسٹ میں؟

وائرل پوسٹ میں ایک تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا گیا ہے، ’’جاپان والے ہمیں ای وی ایم بیچتے ہیں، پر خود اپنے ملک میں بیلٹ پیپر سے الیکشن کرواتے ہیں‘‘۔

فیس بک صارف ’چھوٹی چھوٹی مگر موٹی باتیں‘۔ کے پروفائل سے اس تصویر کو شیئر کیا گیا ہے۔ پڑتال کئے جانے تک اس پوسٹ کو 168 بار شیئر کیا جا چکا ہے، جبکہ اسے 500 سے زیادہ لوگوں نے لائک کیا ہے۔

پڑتال

پوسٹ میں دو دعوےٰ کئے گئے ہیں۔ پہلا دعویٰ تصویر کو لے کرہے، جس میں کچھ خواتین بیلٹ پیپر سے ووٹ ڈالتی نظر آرہی ہیں۔ رورس امیج کی مدد سے کئے گئے سرچ میں ہمیں پتہ چلا کہ متعقلہ تصویر جاپان کی ہے۔

سرچ میں ہمیں پتہ چلا کہ پوسٹ میں استعمال کی گئی تصویر دسمبر 2012 میں ہوئے جاپان کے عام انتخابات کی ہے۔ مسلسل بزرگ ہوتی آبادی کی وجہ سے جاپان نے ووٹ ڈالنے کی عمر کو 20 سال سے کم کر 18 سال کر دی ہے، تاکہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں نوجوان ووٹ ڈال سکیں۔ متعلقہ تصویر جاپان کے ہائی اسکول میں طلبا کے ووٹ ڈالنے کی ہے۔

این بی سی (نیچے انگریزی میں دیکھیں) نیوز میں شائع اس خبر سے تصویر کی حقیقت کی تصدیق ہوتی ہے۔ 2016 میں ہوئے عام انتخابات کی کئی تصاویر میں جاپانی ووٹرس کو بیلٹ کے ذریعہ ووٹ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
NBC 

جاپان کے اخبار دا مانچی میں شائع خبر کے مطابق، خصوصی قانون کے ذریعہ 2002 میں جاپان میں الیکٹرانک ووٹنگ کی شروعات ہوئی تھی، لیکن جاپان میں ووٹنگ کے لئے بیلٹ پیپر کا استعمال کیا جاتا ہے، نہ کی الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا۔

اب آتے ہیں دوسرے دعویٰ پر، جس میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں الیکٹرانک ووٹنگ کے لئے استعمال میں لائی جانے والی ای وی ایم کو جاپان سے خریدہ جاتا ہے۔

اس دعویٰ کی حقیقت کو پرکھنے کے لئے ہم نے الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر مہیا جانکاری اور سرچ کا سہارا لیا۔ الیکشن کمیشن پر موجود جانکاری کے مطابق، پہلی بار ہندوستان میں 1982 میں کیرالہ کے پرور اسمبلی میں ای وی ایم کا استعمال کیا گیا تھا۔

کمیشن کے مطابق، الیشکن میں جن ای وی ایم کا استعمال کیا جاتا ہے، اس کی ڈیزائنگ اور اس کو مکمل طور پر تیار کرنے کا کام دو سرکاری کمپنیاں بھارت الیکٹرانکس لمیٹڈ (بی اییل، بنگلورو) اور الیکٹرانکس کارپوریشن آف انڈیا (ای سی آئی اے ایل، حیدرآباد) کرتی ہیں۔ یہاں بتانا ضروری ہے کہ صرف یہی دونوں سرکاری کمپنیاں الیکشن کمیشن کو ای وی ایم کی سپلائی کرتی ہیں۔

ای سی آئی ایل (نیچے انگریزی میں دیکھیں) کی ویب سائٹ پر دی گئی معلومات کے مطابق، وہ ہندوستان کے  شعبہ جوہری توانائی (ڈی ای اے) کی قیادت میں کام کرنے والی کمپنی ہے، جس کا مقصد کمپیوٹرس، کنٹرول سسٹم اور کمیونی کیشن کی ڈیزائننگ، ڈولپمینٹ، مینوفیکچرنگ اور اس کی مارکیٹنگ کرنا ہے۔ ای سی آئی ایل کی فہرست میں ایسی متعدد  کامیابیاں ہیں، جسے ہندوستان میں پہلی بار کیا گیا اور انہیں میں سے ایک ای وی ایم بھی ہے۔ ای سی آئی ایل حالاںکہ مارکیٹ میں لسٹڈ نہیں ہے۔
ECIL 

وہیں، بنگلورو کی بھارت الیکٹرانکس لمیٹڈ (بی ای ایل) 1954 میں قائم  کی گئی ایک سرکاری شعبے کی کمپنی ہے، جو کمیونی کیشن، رڈار، نیول سسٹم، ویپن سسٹم، ہوم لینڈ سکیورٹی، ٹیلی کام اینڈ برانڈ کاسٹ سسٹمس وغیر کے شعبے میں کام کرتی ہے۔

کمپنی کی ویب سائٹ پر دی گئی اطلاع کے مطابق، وہ سویلین اکوپمینٹ کے شعبے میں ای وی ایم، ٹیبلیٹ پی سی اور شمسی توانائی سے چلنے والے ٹریفک سگنل سسٹم کو بناتی ہے۔ بی ای ایل کے بنگلورو اور پنچکولا کے سکیور یونٹ میں ای وی ایم اور وی وی پیٹ کو بنایا جاتا ہے۔ بی ای ایل مارکیٹ میں لسٹیڈ کمپنی ہے۔

الیکشن کمیشن کے ’اسٹیٹس پیپر آن الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) کے اگست 2018 میں شائع تیسرے ایڈیشن کے مطابق، ’الیکشن کمیشن مستقبل میں ہونے والے تمام لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات میں وی وی پیٹ کا استعمال کرنے کے لئے پابند ہے۔ اس کے لئے ضروری وی وی پیٹ اور اپ ڈیٹڈ ای وی ایم (ایم 3) کی خریداری کے لئے سرکار کی طرف سے ضروری فنڈ کو منظوری دی جا چکی ہے اور مشینوں کو بی ای ایل اور ای سی آئی ایل کی طرف سے 2018 کے نومبر تک  فراہم کر دیا جانا ہے‘‘۔

پیپر میں دی گئی اطلاع کے مطابق، 2006 سے پہلے استعمال میں لائی جانے والی ای وی ایم ایم 1 سیریز کی تھی، تاہم 2006-10  کے بیچ کی ای وی ایم ایم 2 سیریز کی ہے۔ 2013 کے بعد بنائی جانے والی ای وی ایم ایم 3 سیریز کی ہے، جس کا ذکر ای سی آئی ایل اور بی ای ایل کی سالانہ رپورٹ میں بھی ہے۔

ای وی ایم میں استعمال ہونے والا سافٹ ویئر مکمل طور سے ملکی ہے، جسے بی ای ایل اور ای سی آئی ایل کے انجیئنیرس تیار کرتےہیں۔ سافٹ ویئر بننے کے بعد اس کی ٹسٹنگ کی ذمہ داری بھی ایک آزاد گروپ کے ذمہ ہوتی ہے۔

ای وی ایم میں لگنے والی بیٹری تک ای سی آئی ایل اور بی ای ایل کے کارخانوں میں بنائی جاتی ہیں۔

جاپان سے ای وی ایم خریدے جانے کے دعویٰ سے مختلف ہندوستان کچھ ممالک کو ای وی ایم کی فروخت کرتا ہے۔ بی ای ایل کی 2018 کی سالانہ رپورٹ کے مطابق، ’بی ای ایل نامیبیا کو ای وی ایم اور دیگر ساز و سامان کو بناتا ہے اور اب انہوں نے وی وی پیٹ میں دلچسپی دکھئی ہے۔ بوتسوانا نے بھی ای وی ایم اور وی وی پیٹ خریدنے میں دلچسپی دکھائی ہے۔ الیکشن کمیشن کی ہدایات کے مطابق، اکسپورٹ کئے جانے والے ای وی ایم اور وی وی پیٹ  کو بنایا جا رہاہے‘‘۔

رواں سال 2018 میں ایک آر ٹی آئی پر الیکشن کمیشن کی جانب سے دی گئی جانکاری سے اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ آر ٹی آئی پر دئے گئے جواب کے مطابق، گزشتہ کچھ سالوں میں 9 ممالک نے ای وی ایم کے لئے الیکشن کمیشن سے رابطہ کیا ہے۔ نیپال نے 2012 میں، نائجیریا نے 2014 میں، انڈونیشا نے 2016 میں تاہم روس، بھوٹان، بوتسوانا اور پاپونا نیو گنی نے 2017 میں اس کے لئے  درخواست کی۔

آر ٹی آئی پر ملی جانکاری کے مطابق، ہندوستان نے تین مواقع پر اب تک دو ممالک کو ای وی ایم کی فراہمی کی ہے۔ حالاںکہ، آر ٹی آئی میں  حوالہ کی جانکاری نہیں دی گئی ہے، لیکن یہ بتایا گیا ہے کہ 2012 اور 2015 میں نامیبیا اور 2017 میں بھوٹان کو ای وی ایم دئے گئے۔ باقی سبھی معاملات میں الیکشن کمیشن نے یا تو درخواست خارج کر دی یا انہیں ہندوستان کی ضروریات کو دیکھتے ہوئے ان کی مانگ کی ملتوی کر دیا۔

نتیجہ: وشواس نیوز کی پڑتال میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہندوستان کے الیکشن میں جن ای وی ایم کا استعمال ہوتا ہے، وہ پوری طرح سے ہندوستان میں بنائے جاتے ہیں۔ ای وی ایم کی تعمر وزارت دفاع اور محکمہ ایٹمی توانائی کے تحت کام کرنے والے دو پی ایس یو کی قیادت میں ہوتا ہے۔ جاپان سے ای وی ایم خریدہ جانے کا دعویٰ پوری طرح سے غلط ہے، بلکہ متعدد ایسے ممالک ہیں، جنہوں نے ہندستان سے ای وی ایم خریدے جانے کے معاملہ میں دلچسپی دکھائی ہے۔

مکمل سچ جانیں…سب کو بتائیں

اگر آپ کو ایسی کسی بھی خبر پر شک ہے جس کا اثر آپ کے معاشرے اور ملک پر پڑ سکتا ہے تو ہمیں بتائیں۔ ہمیں یہاں جانکاری بھیج سکتے ہیں۔ آپ ہم سے ای میل کے ذریعہ رابطہ کر سکتے ہیں
contact@vishvasnews.com 
اس کے ساتھ ہی واٹس ایپ (نمبر9205270923 ) کے ذریعہ بھی اطلاع دے سکتے ہیں۔Written

False
Symbols that define nature of fake news
Related Posts
Recent Posts