نئی دہلی (وشواس نیوز)۔ سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ وائرل ہو رہی ہے۔ اس میں ایک تصویر ہے جس میں سعودی عرب کے مفتی اعظم الشیخ عبدالعزیز بن عبد اللہ آل الشیخ نظر آرہے ہیں۔ علاوہ ازیں یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ، مفتی اعظم نے ایک فتویٰ جاری کیا ہے جس کے تحت شدید بھوک لگنے پر شوہر اپنی اہلیہ کے گوشت کو کھا سکتے ہیں۔ وشواس ٹیم نے اپنی جانچ میں اس وائرل خبر کو فرضی پایا ہے۔
فیس بک پیج وی سپورٹ ری پبلک پر درشن بھاوسار نام کے شخص نے ایک پوسٹ شیئر کی۔ پوسٹ میں سعودی کے مفتی اعظم الشیخ عبدالعزیز بن عبد اللہ آل الشیخ کی تصویر ہے اور اس کے کیپشن میں لکھا ہے
This is top muslim cleric of world! Aziz bin abdullah He issued FATVA which states that ‘man can eat his wife if he is hungry’I wish all feminists and islam lovers (who opposes #Payal_Rohatgi and similar hindu people) gets husband like aziz bin abullah.
وشواس ٹیم نے سب سے پہلے وائرل ہو رہی پوسٹ کا اسکرین شاٹ لے کر سرچ کیا اور کچھ مناسب کی ورڈس لگائے (مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ آل الشیخ + شوہر اپنی بیوی کو کھا سکتے ہیں) ہمارے آگے تمام لنک کھل کر سامنے آگئے۔
ہمیں متعدد آرٹیکل ملے جس میں یہ واضح ہو گیا کہ یہ معاملہ 2015 کا ہے۔ ہمیں ’’دا مرر‘ کی ایک رپورٹ ملی۔ یہ رپورٹ 2015 میں شائع کی گئی تھی، جس میں فتویٰ سے متعلق لکھا گیا تھا کہ بھوک لگنے پر شوہر اپنی بیوی کو کھا سکتا ہے۔
گوگل پر سرچ کرنے پر ہمیں 2015 کا انڈیا ٹوڈے کا آرٹیکل بھی ملا جس کی سرخی تھی، ’’شدید بھوک لگنے پر مرد کھا سکتے ہیں اپنی بیوی کا گوشت، سعودی عرب کے مفتی اعظم نے یہ بات کہی‘‘۔ جب ہم نے اس خبر کو پڑھنا شروع کیا تو اس میں سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ آل الشیخ کا بیان تھا جس میں انہوں نے اس قسم کے فتویٰ سے انکار کیا ہے۔ خبر میں یہ بھی لکھا گیا کہ اس فتویٰ کی بات (مذاقیہ طریقہ) سے کہی گئی ہے۔
نیوز سرچ میں ہمارے ہاتھ ’اردو پوائنٹ‘ نام کی ایک ویب سائٹ کی 11 اپریل 2015 کو شائع ہوئی ایک خبر لگی۔ اس خبر کی سرخی تھی ’’سعودی مفتی اعظم پر خواتین کا گوشت حلال قرار دینے کا بھونڈا الزام، عالم اسلام میں انتشار پھیلانے کی سازش ہے: مفتی اعظم‘‘۔ اس خبر کو آپ یہاں پڑھ سکتے ہیں۔
آخر یہ بات نکلی کہاں سے؟
ہوا یہ تھا کہ مراکش کے ایک طنزیہ بلاگر اسرافیل المغرب کا ایک آرٹیکل تھا۔ جس میں طنز کیا گیا تھا۔ العربیہ کی یہ رپورٹ سی این این عربی رپورٹ کی بنیاد پر بنائی گئی تھی۔ پوری خبر کو آپ یہاں پڑھ سکتے ہیں۔
العربیہ نے لکھا ہے کہ، ’مراکش کی ایک طنزیہ ویب سائٹ ’اکبر الطنز‘ کی جانب سے طنزیہ طور پر یہ آرٹیکل سب سے پہلے شائع ہوا تھا۔
سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ آل الشیخ پر کا اس موضوع پر ردعمل
اس خبر کے پھیلنے کے بعد مفتی اعظم نے سعودی پریس ایجنسی (ایس پی اے) سے ایک بیان بھی جاری کیا تھا، جس میں انہوں نے صاف طور پر اس فرضی فتویٰ کو خارج کیا تھا اور اس دعویٰ کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ،’’ اس نوعیت کی متنازعہ خبروں کی اشاعت کا ایک مقصد سعودی عرب کے عوام کی توجہ اصل ایشوز سے ہٹا کر فروعی معاملات کی طرف مبذول کرانا ہے۔ خواتین کے گوشت کو حلال قرار دینے کا الزام عاید کر کے سعودی معاشرے اور پوری مسلم امہ کے درمیان انتشار پھیلایا جا رہا ہے میں نے ایسا کوئی بیان نہیں دیا ہے۔ ‘‘۔
یہ واضح ہو گیا کہ یہ معاملہ پرانا ہے اور اس کو غلط حوالے کے ساتھ وائرل کیا جا رہا ہے۔
اس سلسلہ میں ہم نے آل انڈیا امام کونسل کے چیئر مین کے امام ڈاکٹر عمیر محمد الیاسی سے بات کی اور انہوں نے ہمیں بتایا کہ ’’ایسے معاملات پر مذاق نہیں ہونا چاہئے، کیوں کہ یہ باتیں حساس ہوتی ہیں اور ان کا اثر بہت گہرائی تک ہمارے معاشرے پر پڑتا ہے۔ خاص طو پر سوشل میڈیا کے دور میں اس طرح کی باتوں کو سوچ سمجھ کر شیئر کرنا چاہئے۔ پہلے اس کی صداقت کے بارے میں ایک مرتبہ ضرور سوچ لینا چاہئے اور معلومات لے لینی چاہئے‘‘۔
اب باری تھی اس پیج کی سوشل اسکیننگ کی۔ سب سے پہلے اس پروفائل میں دی گئی معلومات دیکھی۔ جس کے مطابق وی سپورٹ ری پبلک گروپ کو 19 اپریل 2017 میں بنایا گیا اور اس کے بنانے کی جگہ ممبئی ہے اور پیج کو 147,322 صارفین فالوو کرتے ہیں۔
نتیجہ: وشواس ٹیم کی پڑتال میں یہ واضح ہو گیا کہ یہ خبر 2015 کی تھی اور اس سے متعلق کیا جا رہا دعویٰ فرضی ہے۔ ایسا کوئی بھی فتویٰ جاری نہیں کیا گیا ہے۔
اگر آپ کو ایسی کسی بھی خبر پر شک ہے جس کا اثر آپ کے معاشرے اور ملک پر پڑ سکتا ہے تو ہمیں بتائیں۔ ہمیں یہاں جانکاری بھیج سکتے ہیں۔ آپ ہم سے ای میل کے ذریعہ رابطہ کر سکتے ہیں
contact@vishvasnews.com
اس کے ساتھ ہی واٹس ایپ (نمبر9205270923 ) کے ذریعہ بھی اطلاع دے سکتے ہیں۔