نئی دہلی (وشواس نیوز)۔ سوشل میڈیا پر شہریت ترمیمی ایکٹ کے معاملہ کو لے کر کئی اواہیں وائرل ہو رہی ہیں۔ گزشتہ روز سے چل رہے آسام احتجاج کے بعد بھی آسام کو لے کر کئی فرضی پوسٹ سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہیں۔ اسی ضمن میں ایک تصویر وائرل ہو رہی ہے جس کے ساتھ میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ یہ آسام کے ڈٹینشن سنٹر کی فوٹو ہے۔ اس تصویر میں لوگ جیل نما چھوٹی سی جگہ میں بےحد مشکل سے لیٹے دکھائی دے رہے ہیں۔ ہم نے اپنی پڑتال میں پایا کہ یہ ڈومینکن رپنلک کی لا رومانا جیل کے قیدیوں کی تصویر ہے۔
وائرل پوسٹ میں ایک تصویر ہے۔ تصویر میں بہت سے لوگوں کو ایک کے اوپر ایک لیٹے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ صارف نے تصویر شیئر کرتے ہوئے کیشپن لکھا ہے’’اس طرح کے حالات میں رہنا آپ کو منظور ہے تو پھر آپ کا خاموش رہنا لاضمی ہے۔ آسام کے ڈٹینشن سنٹر کی ایک تصویر‘‘۔ پوسٹ کے آرکائیو ورژن کو یہاں دیکھیں۔
اس پوسٹ کو پڑتال کرنے کے لئے ہم نے سب سے اس پہلے اس تصویر کو گوگل رورس امیج کے ذریعہ سرچ کیا۔ سرچ کرتے ہی ہمارے سامنے کولنمبیا کے اخبار ال ٹیمپو کی ویب سائٹ کا ایک لنک لگا، جس میں اس تصویر کا استعمال کیا گیا تھا۔ خبر کے مطابق، یہ تصویر ڈومینکن رپبلک کی جا لا رومانا جیل کے قیدیوں کی ہے۔ ہمیں یہ تصویر اور بھی کئی ویب سائٹوں پر ملی اور سبھی کے مطابق یہ تصویر لا رومانا کی ہے۔
اس پوسٹ کی حقیقت تو ہم نے جان لی تھی لیکن اب باری تھی معاملہ کی تصدیق کی اس کے لئے ہم نے آسام کے ڈی جی پی (پولیس ڈی جی) کلدھر سیکیا سے رابطہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ تصویر آسام کی نہیں ہے‘‘۔
اس پوسٹ کو فرضی حوالے کے ساتھ شیئر کرنے والے فیس بک صارف بابو خان بابو کی ہم نے سوشل اسکیننگ کی۔ ہم نے پایا کہ اس پروفائل سے اس سے قبل فرضی پوسٹ شیئر کی گئی ہیں۔
نتیجہ: ہم نے اپنی پڑتال میں پایا کہ آسام ڈٹینشن سنٹر بتا کر وائرل کی جا رہی تصویر اصل میں آسام کی نہیں کی۔ یہ تصویر ڈومینکن رپبلک کی جیل کی ہے۔
اگر آپ کو ایسی کسی بھی خبر پر شک ہے جس کا اثر آپ کے معاشرے اور ملک پر پڑ سکتا ہے تو ہمیں بتائیں۔ ہمیں یہاں جانکاری بھیج سکتے ہیں۔ آپ ہم سے ای میل کے ذریعہ رابطہ کر سکتے ہیں contact@vishvasnews.com
اس کے ساتھ ہی واٹس ایپ (نمبر9205270923 ) کے ذریعہ بھی اطلاع دے سکتے ہیں