وشواس نیوز کی پڑتال میں پتہ چلا کہ دھنباد میں ہوئے ایک نکڈ ناٹک کے ویڈیو کو کچھ لوگ بھوپال پولیس کے نکڈ ناٹک کے نام پر فرقہ وارانہ اینگل دیتے ہوئے وائرل کر رہے ہیں۔ جانچ میں پتہ چلا کہ دھنباد کا ایک ادارے نے الگ الگ تھیم پر نکڈ ناٹک کیا تھا۔ اس میں نماز سے لے کر پوجا تک شامل تھا۔
نئی دہلی (وشواس نیوز)۔ ملک بھر میں پھیلی کورونا وائرس کی وباکے درمیان نکڈ ناٹک کا ایک ویڈیو جھوٹے دعوی کے ساتھ وائرل ہو رہا ہے۔ پوسٹ کے ذریعہ یہ پھیلانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ بھوپال پولیس کے نکڈ ناٹک میں کورونا وائرس پھیلانے کے لئے مسلمانوں کو ذمہ دار مانا گیا ہے۔
وشواس نیوز کی پڑتال میں وائرل پوسٹ کا دعوی فرضی ثابت ہوا۔ وائرل ویڈیو کا بھوپال پولیس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس ناٹک کو دھنباد کے تعلیمی ادارے نے 4 مئی کو مقامی پولیس کی مدد سے کیا تھا۔ ناٹک میں صرف نماز کے لئے جاتے نوجوان کی نہیں، بلکہ پوجا کے لئے مندر جاتی خواتین کی تھیم کو بھی شامل کیا گیا تھا۔ ناٹک کا مقصد بیداری پیدہ کرنا تھا، نہ کہ کسی مذہب پر نشانا سادھنا۔
فیس بک صارف عدنان خان نے 14 مئی کو ایک ویڈیو کو اپ لوڈ کرتے ہوئےدعوی کیا: ’’یہ ویڈیو بھوپال کا ہے جس میں پولیس کے ذریعہ ایک ناٹک بنایا گیا، کوروناپھیلا نے کے لئے مسلم کو ناٹک میں ذمہ دار بتایا گیا۔ ملک کی تقری نہ ہو لیکن نفرت میں تقری ہو رہی ہے‘‘۔
فیس بک پر دیگر صارفین بھی اس ویڈیو کو فرضی دعوی کے ساتھ وائرل کر رہے ہیں۔
وشواس نیوز نے سب سے پہلے نکڈ ناٹک کے ویڈیو کو غور سے دیکھا اور سنا۔ یہ صاف تھا کہ وائرل ویڈیو نکڈ ناٹک کا ہے۔ ویڈیو میں لوگوں کی بولی سے ہمیں یہ اندازہ ہوا کہ ویڈیو کہیں نہ کہیں بہار یا جھارکھنڈ کا ہے، کیوں کہ ویڈیو میں نظر آرہے لوگوں کے بولنے کا انداز انہیں دو ریاستوں کی جانب اشارہ کر رہا تھا۔ وائرل ویڈیو میں ہمیں کچھ لوگوں کی ٹی شرٹ پر ’شکشا سامادھان‘ لکھا ہوا نظر آیا۔
گوگل سرچ کے دوران ہمںی ڈیلی ہنٹ پر ہندستان سماجار کی ایک خبر ملی۔ خبر میں بتایا گیا کہ دھنباد میں کتراس پولیس انتظامیہ اور شکشا سماداھان ٹرسٹ کی جانب سے ایک ناٹک اسٹیج کیا گیا۔ ناٹک کے ذریعہ یہ دکھایا گیا کہ دوران کورونا وائرس میں خواتین کا مندر میں جانا، لوگوں کا نماز ادا کرنے اور بچوں کا میدان میں کھیلنے جانا وغیرہ کام ان کے لئے خطرناک ہو سکتا ہے۔ پوری خبر آپ یہاں پڑھ سکتے ہیں۔
پڑتال کے اگلے مرحلہ میں ہم نے شکشا سمادھان ٹرسٹ کے بارے میں معلومات جمع کرنی شروع کی۔ سوشل میڈیا پر ہمیں پتہ چلا کہ یہ دھنباد کا ایک مقامی ادارہ ہے۔ اس کے صدر دامودر ساؤ ہیں۔ پڑتال کے دوران ہمیں دامودر پرساد ساؤ کا ایک ویڈیو ملا۔ 11 مئی کو اپ لوڈ اس ویڈیو میں دامودر کو یہ کہتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے کہ کچھ لوگ نوکڈ ناٹک کے ویڈیو کو مذہب سے جوڑ کر وائرل کر رہے ہیں۔ کچھ شر پسند عناصر نفرت پھیلانے کے مقصد سے ویڈیو کو اپنی آئڈیولاجی کے حساب سے وائرل کر رہے ہیں۔ یہی ویڈیو ہمیں دامودر پرساد کے ٹویٹر ہینڈل پر بھی ملا۔ پورا ویڈیو یہاں دیکھیں۔
دامودر کے ہی ٹویٹر ہینڈل پر ہمیں الگ الگ تھیم کے نوکڈ ناٹک کے ویڈیو ملے۔ ایک ویڈیو میں ہمیں دو خواتین مندر زبردستی مندر میں پوجا کے لئے جاتی ہوئی دکھیں۔ یہ ویڈیو آپ یہاں دیکھ سکتے ہیں۔
اس کے بعد وشواس نیوز نے شکشا سمادھان ادارے کے دامودر پرساد راؤ سے رابطہ کیا۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ، ’ مئی کو ہماری ادارے نے دھنباد ضلع کی کتراس پولیس کی مدد سےکئی نکڈ ناٹک کئے تھے۔ اس میں الگ الگ تھیم تھی۔ کسی میں مندروں میں پوجا کرنے جاتی خواتین تھیں تو کسی میں نماز کے لئے مسجد میں جاتا نوجوان۔ مچھلی پکڑنے سے لے کر کرکٹ کھیلنے تک ہم لوگوں نے ناٹک کیا، لیکن کسی شر پسند عناصر نے نماز والے منظر کو فرضی طریقہ سے پھیلا دیا۔ ہم تو لوگوں میں بیداری پیدہ کرنے کا کام کرتے ہیں، لیکن کچھ لوگ نفرت پھیلا رہے ہیں‘‘۔
اب باری تھی اس پوسٹ کو فرضی دعوی کے ساتھ وائرل کرنے والے فیس بک صارف ’عدان خان کی سوشل اسکیننگ کرنے کی۔ ہم نے پایا کہ اس صارف کا تعلق میرٹھ سے ہے۔ علاوہ ازیں یہ صارف زیادہ تر وائرل پوسٹ شیئر کرتا ہے۔
نتیجہ: وشواس نیوز کی پڑتال میں پتہ چلا کہ دھنباد میں ہوئے ایک نکڈ ناٹک کے ویڈیو کو کچھ لوگ بھوپال پولیس کے نکڈ ناٹک کے نام پر فرقہ وارانہ اینگل دیتے ہوئے وائرل کر رہے ہیں۔ جانچ میں پتہ چلا کہ دھنباد کا ایک ادارے نے الگ الگ تھیم پر نکڈ ناٹک کیا تھا۔ اس میں نماز سے لے کر پوجا تک شامل تھا۔
اگر آپ کو ایسی کسی بھی خبر پر شک ہے جس کا اثر آپ کے معاشرے اور ملک پر پڑ سکتا ہے تو ہمیں بتائیں۔ ہمیں یہاں جانکاری بھیج سکتے ہیں۔ آپ ہم سے ای میل کے ذریعہ رابطہ کر سکتے ہیں contact@vishvasnews.com
اس کے ساتھ ہی واٹس ایپ (نمبر9205270923 ) کے ذریعہ بھی اطلاع دے سکتے ہیں