فیکٹ چیک: قبائلیوں کی زمین پر نماز کے لئے قبضہ والی خبر فرضی ہے
- By: Umam Noor
- Published: Jun 10, 2019 at 03:40 PM
- Updated: Jun 10, 2019 at 05:37 PM
نئی دہلی (وشواس ٹیم)۔ دینک بھارت نام کی ایک ویب سائٹ نے 5 جون 2019 کے روز ایک خبر شائع کی جس کی سرخی تھی، ’’نماز کے لئے قبائلیوں کی زمین پر کر رہے تھے قبضہ، تیر دھنش سے قبائلیوں نے بچائی زمین‘‘۔ اس خبر کو سوشل میڈیا پر بہت سے لوگ شیئر کر رہے ہیں۔ فیس بک پر اسے 1000 سے زیادہ بار ابھی تک شیئر کیا جا چکا ہے۔ ہماری پڑتال میں ہم نے پایا کہ دینک بھارت کے ذریعہ شائع کی گئی رپورٹ غلط ہے۔ اصل میں یہ زمین قبائلیوں کی نہیں، بلکہ محمد انوار الحق نام کے ایک شخص کی ہے جس کی زمین پر قبائلیوں نے قبضہ کیا تھا۔ عید والے دن چائے باغان کے قریب عید گاہ میں عید کی نماز ادا کرنے آئے لوگوں سے خطرہ سمجھ کر قبائلیوں نے جلد بازی میں تیروں سے حملہ کر دیا۔ حالات اب قابو میں ہیں۔
دعویٰ
اس پوسٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے، ’’نماز کے لئے قبائلیوں کی زمین پر کر رہے تھے قبضہ، تیر دھنوش سے قبائلیوں نے بچائی زمین‘‘ اس خبر کے مطابق، ’’بہار کشن گنج کے ٹھاکر گنج تھانہ حلقہ کے دھلاباڑی چائے باغان میں قبائلیوں کی زمین پر نمازیوں نے قبضہ کرنے کی کوشش کی، قبضہ نماز پڑھنے کے مقصد سے ہو رہا تھا۔ قبائلیوں نے اس بات کی مخالفت کی۔ قبائلیوں نے نماز کے لئے زمین دینے سے انکار کیا تو متنازعہ بڑھ گیا، نمازیوں نے زیادہ تعداد ہونے کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی تو قبائلیوں نے پھر اپنی زمین بچانے کے لئے لڑنے کا من بنا لیا اور پھر قبائلیوں نے اپنی زمین بچانے کے لئے تیر دھنوش کا استعمال کیا‘‘۔ اس خبر کے اندر ’اسکوینٹ ناین (نیچے انگریزی میں دیکھیں) نام کے ٹویٹر ہینڈل کے ذریعہ کیا گیا ایک ٹویٹ بھی ہے جس میں بھی یہی معلومات دی گئی ہے۔ خبر کے ساتھ ایک تصویر بھی لگی ہے جس میں ایک شخص کو کچھ لوگ اٹھا کر لے جا رہے ہیں اور اس شخص کے سینے میں ایک تیر لگا ہوا ہے۔ ہماری پڑتال میں ہم نے پایا کہ دینک بھارت کے ذریعہ شائع کی گئی خبر غلط ہے۔
Squint Nayan @squintneon
فیکٹ چیک
اپنی پڑتال کو شروع کرنے کے لئے ہم نے سب سے پہلے اسٹوری میں استعمال کی ہوئی تصویر کا اسکرین شاٹ لیا اور اسے گوگل رورس امیج پر سرچ کیا۔ پہلے ہی پیج پر ہمیں لائیو ہندوستان ویب سائٹ کی خبر ملی جس میں اس تصویر کا استعمال کیا گیا تھا۔ لائیو ہندوستان کی خبر کی ہیڈ لائن تھی، ’’چائے باغان مالکوں اور قبائلیوں میں جڑپ، تیر سے حملہ، ڈی ایم پر بھی پھینکے پتھر‘‘۔ اس خبر کے مطابق، محمد امتیاز نام کے ایک شخش کا کشن گنج میں چائے باغان ہے جس میں تقریبا دیڑھ ماہ پہلے کچھ قبائلیوں نے قبضہ کر لیا تھا۔ قبائلیوں کو روکنے کے لئے جب چائے باغان مالک اپنے کچھ لوگوں کے ساتھ وہاں پہنچا تو قبائلیوں نے ان لوگوں پر حملہ کر دیا جس میں تقریبا نصف درجن لوگ زخمی ہو گئے۔ پولیس نے کاروائی کی اور کچھ لوگوں کو گرفتار بھی کیا تھا۔
ہم نے ان کی ورڈس کے ساتھ گوگل پر سرچ کیا تو ہمیں یہی خبر لوک مت نیوز نام کی ایک ویب سائٹ پر بھی ملی۔
اب وقت تھا اپنی جانب سے اس خبر کی تصدیق کرنے کا۔ اس سلسلہ میں ہم نے دینک جاگرن کے کشن گنج کے رپورٹر امیتیش سے رابطہ کیا۔ امیتیش نے ہمیں یہ خبر تفصیل سے بتائی۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ رواں سال اپریل کے آخر میں محمد انوار الحق نام کے ایک شخص کے چائے باغان پر تقریبا 100 قبائلیوں نے قبضہ کر لیا تھا اور کچی جھوپڑیاں بنا کر وہاں رہنے لگے تھے۔ محمد انوار الحق، ان کے بھائی امتیاز کے ساتھ تقریبا 1000 لوگ جب عید کے روز عید گاہ میں نماز ادا کرنے پہنچے تو بھیڑ کو دیکھ کر قبائلیوں نے ہڑبڑی میں تیروں سے حملہ شروع کر دیا جس میں 5 لوگ زخمی ہوئے۔ موقع پر پولیس نے بھی طاقت کا استعمال کیا۔ کشن گنج کے ڈی ایم ہیمانشو شرما بھی موقع پر پہنچے تھے۔
اس سلسلہ میں ہم نے کشن گنج کے ڈسٹرکٹ میجسٹریٹ ہیمانشو شرما سے بھی بات کی جنہوں نے ہمیں بتایا کہ ’چائے باغان کی زمین کو سال 2006 میں محمد انوار الحق اور ان کے بھائی نے قانونی طور پر خریدہ تھا۔ اسی زمین پر کچھ ماہ پہلے تقریبا 40 قبائلی خاندان جھوپڑیاں بنا کر رہنے لگے۔ محمد انوار الحق کی شکایت کے بعد انتظامیہ نے قبائلیوں سے بات کی اور انہیں وہاں سے ہٹانے کے لئے بات چیت چل رہی تھی۔ ان قبائلیوں کو انتظامیہ کے ذزیعہ کچھ زمین دینے کی تجویز بھی پیش کی گئی تھی جسے کچھ قبائلیوں نے قبول بھی کر لیا تھا۔ دریں اثنا 5 جون کو عید والے دن چائے باغان سے لگے ہوئے عید گاہ کی دیوار پر کسی نے مذہب خصوص کا پرچم لگا دیا۔ عید گاہ میں لوگ نماز ادا کرنے آئے اور انہوں نے اس جھنڈے کی مخالفت کی اور پولیس کو کہا کہ یہ قبائلیوں کے ذریعہ یہ حرکت جان بوجھ کر کی گئی ہے۔ شکایت پر پولیس نے فورا ایکشن لیا اور بات چیت سے معاملہ کو حل کرنے کی کوشش کی۔ اپنے آپ کو گھرا ہوا سمجھ کر قبائلیوں نے ہوا میں کچھ تیر چھوڑے جس میں 5 لوگ زخمی ہو گئے۔ تمام زخمیوں کو اسپتال میں داخل کرایا گیا جس میں سے 4 فورا ڈسچارج ہو گئے اور دیگر کی حالت بھی ٹھیک ہے اور اسے جلد ڈسچارج کیا جائے گا۔ اسی دوران میں اور یہاں کے ایس پی کمار آشیش بھی موقع پر پہنچے اور معاملہ کی ثالثی کی۔ ہم نے دونوں گروپوں سے بات کی اور چائے باغان کی زمین بھی خالی کروائی۔ ان قبائلیوں کو گاڑیوں میں بھر کر ہم نے جگہ خالی کروائی۔ اسی بیچ کچھ شرپسندوں نے گاڑیوں پر پتھربازی کی جس پر پولیس نے ایکشن لیا اور لاٹھی چارج کرکے بھیڑ کو ہٹایا۔ پورا معاملہ ایک زمین متنازعہ کا تھا جسے فرقہ وارانہ اینگل دینے کی کوشش کی گئی۔ کشن گنج میں تمام برادریاں پر امن طریقہ سے رہتی ہیں پر کچھ شر پسند عناصر ایسے حساس مواقع کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور معاشرہ میں ہم آہنگی کو متاثر کرنے کی کوشش کرتے ہیں‘‘۔
اس پوسٹ کو دینک بھارت نام کی ایک ویب سائٹ کے ذریعہ شیئر کیا گیا تھا۔ اس ویب سائٹ کے اباوٹ اس سیکشن کے مطابق، یہ ایک نیوز ویب سائٹ ہے۔ ہم نے اس ویب سائٹ کو ہو ایز پر سرچ کیا تو پایا کہ اس ویب سائٹ کو 10۔07۔2018 میں بنایا گیا تھا۔
نتیجہ: ہماری پڑتال میں ہم نے پایا کہ دینک بھارت میں شائع کی گئی رپورٹ غلط ہے۔ اصل میں یہ زمین قبائلیوں کی نہیں، بلکہ محمد انوار الحق نام کے ایک شخص کی ہے جس پر قبائلیوں نے قبضہ کیا تھا۔ عید والے دن چائے باغان سے ملی ہوئی ایک عید گاہ میں نماز ادا کرنے آئے لوگوں سے خطرہ سمجھ کر قبائلیوں نے جلد بازی میں تیروں سے حملہ کر دیا۔ حالات اب قابو میں ہیں۔
مکمل سچ جانیں…سب کو بتائیں
اگر آپ کو ایسی کسی بھی خبر پر شک ہے جس کا اثر آپ کے معاشرے اور ملک پر پڑ سکتا ہے تو ہمیں بتائیں۔ ہمیں یہاں جانکاری بھیج سکتے ہیں۔ آپ ہم سے ای میل کے ذریعہ رابطہ کر سکتے ہیں
contact@vishvasnews.com
اس کے ساتھ ہی واٹس ایپ (نمبر9205270923 ) کے ذریعہ بھی اطلاع دے سکتے ہیں۔
- Claim Review : بہار کے کشن گنج میں مسلمانوں نے قبائلیوں کی زمین پر قبضہ کیا
- Claimed By : Dainik Bharat
- Fact Check : جھوٹ