حیدرآباد کے علاقے لال دروازہ میں گنیش چورتھوتی کے تہوار سے متعلق ویڈیو فرقہ وارانہ دعوے کے ساتھ وائرل ہو رہا ہے۔ ویڈیو میں ، جھگڑے کرنے والے مجمع میں شامل تمام افراد ایک ہی مذہب کے ماننے والے اور آپس میں رشتہ دار ہیں۔ یہ دعویٰ غلط ہے کہ مسلمانوں نے گنیشے کے مجسمے کی تنصیب کی مخالفت کی۔
نئی دہلی (وشواس نیوز)۔ گنیش چتوترھی سے منسلک ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر فرقہ وارانہ دعوی کے ساتھ وائرل ہو رہی ہے۔ وائرل ہو رہے ویڈیو کے ساتھ دعوی کیا جا رہا ہے کہ جیدرآباد میں کچھ مسلمانوں نے گنیش مورتی کی تنصیب کی مخالفت کی، جس کے سبب انہیں پیٹا گیا۔
وشواس نیوز کی پڑتال میں یہ دعوی غلط نکلا۔ حیدرآباد کی یہ معاملہ رشتہ داروں کے بیچ ہوئی جھڑپ تھی۔ مارپیٹ کے اس معاملہ میں کسی دوسرے مذہب کا کوئی شخص شامل نہیں تھا۔
فیس بک پیج ’بھگوا رکشک‘ نے وائرل ویڈیو کو شیئر کرتے ہوئے لکھا ہے، ’’حیدرآباد میں کچھ ملے گنیش مجسمے کے قیام کی مخالفت کر رہے تھے، موقع پر پیٹ دئے گئے‘‘أ
وائرل ہو رہا ویڈیو ایک منٹ نو سیکنڈ کا ہے اور اس میں مارپیٹ والی بھیڑ میں کچھ پولیس والوں کو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ ویڈیو میں 32 سیکنڈ کے فریم میں ایک کار کو دیکھ سکتے ہیں، جس کا نمبر اےپی 12 ایل 99909 لکھا ہواہے۔ یعنی یہ معاملہ، آندھرا پردیش تیلنگانہ اور حیدرآباد میں کسی جگہ سے منسلک ہے۔
ان کی ورڈس کے ساتھ نیوز سرچ کرنے پر ہمیں 23 اگست کو دا نیوز منٹ ڈاٹ کام کی ویب سائٹ پر شائع رپورٹ ملی، جس میں وائرل ہو رہے ویڈیو کے گریب کا استعمال کیا گیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق ، یہ ویڈیو حیدرآباد کے لال دروازہ علاقے سے متعلق ہے ، جس میں گنیش مورتی کی تنصیب کو لے کر ایک کنبہ کے افراد کے درمیان تنازعہ کھڑا ہوا تھا۔ واقعے میں ملوث تمام افراد ایک ہی مذہب کے تھے۔
ڈپٹی کمشنر آف پولیس بی سرینواسا ریڈی کے مطابق ، “یہ 21 اگست کا واقعہ ہے ، جو غلط تناظر میں پھیلایا جارہا ہے۔” گنیش کا مجسمہ سڑک پر نصب کیا جارہا تھا ، جس کی وجہ سے گاؤں جانے والی ایمبولینس کا راستہ روک دیا گیا تھا۔ گاؤں کے سرپنچ نے مقامی پولیس سے مجسمہ کو وہاں سے ہٹانے کی درخواست کی اور مقامی حکام نے اس میں ان کی مدد کی۔ اس بارے میں متنازعہ ہوا تھا‘‘۔
اس رپورٹ میں اسسٹنٹ کمشنر پولیس ایم اے راشد کا بیان بھی ہے۔ اس کے مطابق ، ‘ان کے علاقے میں گنیش چتروتی کے تہوار کے دوران کہیں بھی فرقہ وارانہ تناؤ کی اطلاع نہیں ہے‘۔
لال دروازہ کا علاقہ تھانہ مغلپورہ کے دائرہ کار میں آتا ہے۔ وشواس نیوز نے معاملے کی تصدیق کے لئے اسٹیشن ہاؤس آفیسر اے روی کمار سے رابطہ کیا ، لیکن ہم ان سے بات نہیں کرسکے۔
اس کے بعد ہم نے ایڈیشنل انسپکٹر رنجیت کمار گوڈ سے رابطہ کیا۔ انہوں نے ہمیں بتایا ، ‘وائرل ہونے والی ویڈیو لال دروازہ کے علاقے میں پیش آنے والے واقعے سے متعلق ہے ، لیکن اس کا کوئی فرقہ وارانہ پہلو نہیں ہے۔
گوڈ نے کہا ، ’’اس حملے میں ملوث افراد میں سے کسی کا تعلق دوسرے مذاہب سے نہیں تھا ، بلکہ سبھی ایک ہی مذہب کے ماننے والے اور رشتہ دار تھے‘‘۔
ویڈیو کو فرضی دعوی سے شیئر کرنے والے فیس بک پیج ’بھگوا رکشک‘ کی سوشل اسکیننگ میں ہم نے پایا کہ اس پیج کو 408 صارفین فالوو کرتے ہیں۔
نتیجہ: حیدرآباد کے علاقے لال دروازہ میں گنیش چورتھوتی کے تہوار سے متعلق ویڈیو فرقہ وارانہ دعوے کے ساتھ وائرل ہو رہا ہے۔ ویڈیو میں ، جھگڑے کرنے والے مجمع میں شامل تمام افراد ایک ہی مذہب کے ماننے والے اور آپس میں رشتہ دار ہیں۔ یہ دعویٰ غلط ہے کہ مسلمانوں نے گنیشے کے مجسمے کی تنصیب کی مخالفت کی۔
اگر آپ کو ایسی کسی بھی خبر پر شک ہے جس کا اثر آپ کے معاشرے اور ملک پر پڑ سکتا ہے تو ہمیں بتائیں۔ ہمیں یہاں جانکاری بھیج سکتے ہیں۔ آپ ہم سے ای میل کے ذریعہ رابطہ کر سکتے ہیں contact@vishvasnews.com
اس کے ساتھ ہی واٹس ایپ (نمبر9205270923 ) کے ذریعہ بھی اطلاع دے سکتے ہیں