متنازعہ سوشل میڈیا پوسٹ کے سبب کرناٹک کے بنگلورو میں تشدد کے نام پر وائرل ہو رہی یہ تصویر بنگلہ دیش میں 2013 میں ہوئے اتجاجی مظاہرہ کی ہے۔
نئی دہلی (وشواس نیوز)۔ کرناٹک کے بنگلورو میں ہوئے تشدد کے بعد سوشل میڈیا پر تشدد کرنے والی بھیڑ کی تصویر وائرل ہو رہی ہے۔ دعوی کیا جا رہا ہے کہ یہ تصویر بنگلورو میں تشدد بھیڑ کی ہے۔
وشواس نیوز کی پڑتال میں یہ دعوی غلط نکلا۔ بنگلورو میں تشدد کرنے والی بھیڑ کے نام پر وائرل ہو رہی یہ تصویر بنگلہ دیش کی ہے، جسے غلط دعوی کے ساتھ سوشل میڈیا پر وائرل کیا جا رہا ہے۔
فیس بک صارف ’کنال پرتاپ سنگھ‘ نے تصویر کو شیئر کرتے ہوئے لکھا ہے
‘‘For a Facebook post, two police stations, buses, cars and houses were burnt peacefully. Around 60 policemen including a ACP were injured in a peacefull riot. The dare huye musalman of bangalore burnt the MLA House as their life is in danger in India. Police said they fired 200 bullets in air. And this irked the muslims a lot, as they thought the police try to shoot their Allah instead of shooting the person who made the Facebook post.Yes if we ban hindus to write in social media then only the muslims can live here peacefully. The government should take necessary steps for it.The government should give one crore rupees and a government job to those Muslims who are all participated in the peacefull riot and get victimised by some criminal terrorist hindus.And Sources says there is a person named muddasir ahamed, who organised this agitation. And government of India should give him Bharat Ratna award for his work of uniting dare huye musalman’’.
یہ پہلی بار نہیں ہے جب اس تصویر کو غلط دعوی کے ساتھ وائرل کیا گیا ہے۔ اس سے قبل یہ تصویر کیرالہ میں تشدد بھیڑ کے دعوی کے ساتھ وائرل ہو چکی ہے۔
وائرل پوسٹ میں کی گئی تصویر کے ساتھ کئے گئے دعوی کی حقیقت کو جانچنے کے لئے ہم نے گوگل رورس امیج سرچ کی مدد لی۔ سرچ میں ہمیں یہ تصویر بنگلہ دیشی مصنف تسلیما نسرین کے ٹویٹر ہینڈل پر ملی۔
گّزشتہ سال 26 اکتوبر 2019 کو شیئر گئے گئے پوسٹ میں ان تصاویر کو بنگلہ دیش کا بتایا گیا ہے۔ یہاں سے ملی جانکاری کے بعد ہم نے نیوز سرچ کا سہارا لیا۔ سرچ میں ہمیں اسی مظاہرہ سے جڑی ہوئی ایک دیگر تصویر گیٹی امیجز کی ویب سائٹ پر ملی۔
تصویر کے ساتھ دی گئی معلومات کے مطابق، ’پانچ مئی 2013 کو اسلامی بنیاد پرستوں نے توہین رسالت کے ایک نئے قانون کے مطالبے کے لئے ڈھاکہ میں بڑے پیمانے پر احتجاج کیا۔ اس احتجاج میں ایک شخص کی موت ہوگئی ، جبکہ 35 افراد زخمی ہوئے۔’الجزیرہ‘ کی ویب سائٹ پر چھ مئی 2013 کو شائع ہوئی رپورٹ سے اس کی تصدیق ہوتی ہے۔
اس کے بعد ہم نے بنگلورو میں نیوز چینل این ڈی ٹی وی کے رپورٹر نحال قدوائی سے رابطہ کیا۔ اس تصویر کے بنگلورو تشدد سے جڑے ہونے کے دعوی کو خارج کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’یہ تصویر بنگلورو میں ہوئے تشدد سے منسلک نہیں ہے‘‘۔
وائرل پوسٹ میں ذرائع کے حوالے سے یہ دعوی کیا گیا ہے کہ مدثر احمد نام کے شخص نے بنگلورو احتجاجی مظاہرہ کیا۔
این بی ٹی کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق، متنازعہ فیس بک پوسٹ کی وجہ سے بنگلورو میں تشدد کے بعد اس معاملے میں 206 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق ، ’’ناگوارہ وارڈ میں بی بی ایم پی کے کونسلر ارشاد بیگم کے شوہر کلیم پاشا کو گرفتار کیا گیا ہے۔ کلیم پاشا کو کانگریس کے وزیر کا حلیف بھی کہا جاتا ہے۔ تشدد کو بھڑکانے کے پیچھے سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (ایس ڈی پی آئی) کے کردار کی بھی چھان بین جاری ہے۔ کرناٹک کے نائب وزیر علی اشوت نارائن کے مطابق ، تشدد میں ایس ڈی پی آئی کے چار ممبروں کی گرفتاری کے بعد حکومت اس پر پابندی عائد کرنے پر غور کررہی ہے‘‘۔
‘آج تک’ کی رپورٹ کے مطابق، ’ہنگامہ کی شروعات فیس بک پوسٹ سے ہوئی۔ یہ الزام لگایا گیا ہے کہ کانگریس کے ایم ایل اے سرینواس مورتی کے بھتیجے نے فیس بک پر اشتعال انگیز پوسٹ پوسٹ کی تھی۔ اس پوسٹ کے بعد ، ہجوم نے منگل کی رات 9.30 بجے مشرقی بنگلورو میں ایم ایل اے سرینواس مورتی کے گھر اور ڈی جے ہلی پولیس اسٹیشن پر حملہ کیا۔ رپورٹ کے مطابق ، اس معاملے میں ایم ایل اے کے بھتیجے پی نوین کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔
نیوز سرچ میں ہمیں انڈیا ٹی وی نیوز ڈاٹ کام کی ویب سائٹ پر شائع کردہ ایک اوپینیئن آرٹیکل ملا ، جس میں یہ دعوی کیا گیا تھا کہ ’بنگلورو پولیس پولیس مدثر احمد کی تلاش کر رہی ہے ، جس نے قابل اعتراض فیس بک پوسٹ کے اسکرین شاٹ کو کو لوگوں کی درمیان پھیلایا۔ احمد نے اپنے پیغام میں ، مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ فوری طور پر ڈی جے ہلی پولیس اسٹیشن کے باہر جمع ہوں‘۔
وشواس نیوز تاہم آزادانہ طور پر اس دعوے کی تصدیق نہیں کرتا ہے۔ مذکورہ مضمون میں ، ہم نے مدثر احمد سے متعلق دعوے کی تصدیق کے لئے بنگلورو کے انچارج ڈی سی پی (ایسٹ) اور ڈی جے ہلی پولیس اسٹیشن سے رابطہ کیا ، لیکن دونوں افسران نے اس معاملے میں کچھ بھی کہنے سے انکار کرتے ہوئے فون ہی رکھا۔
پوسٹ کو فرضی دعوی کے ساتھ شیئر کرنے والے فیس بک صارف کی سوشل اسکیننگ میں ہم نے پایا کہ مذکورہ صارف کو 35 صارفین فالوو کرتے ہیں۔
نتیجہ: متنازعہ سوشل میڈیا پوسٹ کے سبب کرناٹک کے بنگلورو میں تشدد کے نام پر وائرل ہو رہی یہ تصویر بنگلہ دیش میں 2013 میں ہوئے اتجاجی مظاہرہ کی ہے۔
اگر آپ کو ایسی کسی بھی خبر پر شک ہے جس کا اثر آپ کے معاشرے اور ملک پر پڑ سکتا ہے تو ہمیں بتائیں۔ ہمیں یہاں جانکاری بھیج سکتے ہیں۔ آپ ہم سے ای میل کے ذریعہ رابطہ کر سکتے ہیں contact@vishvasnews.com
اس کے ساتھ ہی واٹس ایپ (نمبر9205270923 ) کے ذریعہ بھی اطلاع دے سکتے ہیں