ہم نے اپنی پڑتال میں پایا کہ ویڈیو اصل میں بنگلہ دیش کا اور 2013 کا ہے۔ ویڈیو کا این آر سی یا آسام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
وشواس نیوز (نئی دہلی)۔ آسام میں این آر سی کو لے کر افواہوں کا دور جاری ہے۔ ایسے میں سوشل میڈیا پر آج کل ایک ویڈیو وائرل ہو رہا ہے۔ اس میں سکیورٹی فورسز لوگوں کو بری طرح سے مارتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ ویڈیو کے ساتھ دعوی ٰکیا جا رہا ہے کہ یہ آسام کا معاملہ ہے اور پولیس زبردستی لوگوں کو گھر سے اٹھا رہی ہے۔ ہم نے اپنی پڑتال میں پایا کہ یہ ویڈیو اصل میں بنگلہ دیش کا اور 2013 کا ہے۔ ویڈیو کا این آر سی یا آسام سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
سوشل میڈیا پر وائرل اس ویڈیو میں سکیورٹی فورسز کو بری طرح پیٹتے ہوئے دکھ رہے ہیں۔ ویڈیو کے ساتھ کیپشن میں لکھا ہے
“Asam me NRC lagu, logo ko gharoo se uthana shuru ho chuka h. News wale aapko ye nahi dekhayegi, kyun ki wo bik chuki h, ab aapki aur humari zimmadari h is video ko ziyada se ziyada share karne ki.”
اس پوسٹ کے آرکائیو ورژن کو یہاں دیکھا جا سکتا ہے۔
اس پوسٹ کی پڑتال کرنے کے لئے ہم نے سب سے پہلے اس ویڈیو کو صحیح سے دیکھا۔ ویڈیو 2 منٹ 27 سیکنڈ کا ہے۔ ویڈیو میں 1 منٹ 27 سیکنڈ پر سیکورٹی فورسز پر آر اے بی لکھا دیکھا جا سکتا ہے۔
ہم نے انٹرنیٹ پر تلاش کیا تو پایا کہ آر اے بی کی فل فارم ہے ریپڈ ایکشن بٹالیئن اور یہ بنگلہ دیش پولیس کی ایک ملزم اور دہشت گردی کے خلاف لڑنے والی یونٹ ہے۔
وائرل ویڈیو میں 2 منٹ 17 سیکنڈ پر ایک صحافی کو دیکھا جا سکتا ہے جس کی جیکٹ پر بنگلہ اور انگریزی میں ای ٹی وی لکھا ہے۔
اس کے بعد ہم نے اس ویڈیو کو ان ویڈ ٹول پر ڈالا اور اس ویڈیو کے کی فریمس نکالے۔ پھر ہم نے ان کی فریمس کو گوگل رورس امیج پر ’بنگلہ دیش تشدد ای ٹی وی کی ورڈ کے ساتھ سرچ کیا۔ سرچ میں ہمارے ہاتھ 7 مئی 2013 کو یوٹیوب پر اپ لوڈیڈ ویڈیو لگا جس کی سرخی تھی
“ETV On Joint Security Force’s Attack On Hefazat Rally – (06.05.13)”
ویڈیو کے مطابق یہ معاملہ 2013 میں بنگلہ دیش کے ڈھاکہ میں پیش آیا ہے۔
ہم نے اس ویڈیو کو وائرل ویڈیو سے ملایا تو ہمیں ویڈیو کا ایک فریم متعلقہ ویڈیو جیسا نظر آیا۔
ہم نے اس موضوع میں ای ٹی وی بنگلہ دیش کے ایڈیٹر محمد اقبال خان سے بات کی جنہوں نے کہا، ’’یہ معاملہ بنگلہ دیش کے ڈھاکہ کا ہی ہے۔ معاملہ 2013 کا ہے۔ ویڈیو میں نظر آرہے رپورٹر بھی ای ٹی وی کے ہی ہیں‘‘۔
تلاش کرنے پر ہمیں بنگلہ دیش کے اس معاملہ کا مزید ایک ویڈیو ملا۔ ہم نے اس ویڈیو کو بھی وائرل ویڈیو سے ملایا تو ہمیں ایک فریم وائرل ویڈیو جیسا نظر آیا۔
ہمیں یہ پورا ویڈیو ڈیلی موشن پر بھی ملا۔ اس کا کیپشن تھا
Genocide in Dhaka Bangladesh on 6 May 2013.’
وائرل پوسٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ معاملہ آسام کا ہے، اسلئے ہم نے آسام ڈی جی پی بھاسکر جیوتی مہنت کے سی پی آر او پی سی سین سے بات کی۔ انہوں نے کہا، ’’یہ ویڈیو آسام کا نہیں ہے‘‘۔
اب باری تھی اس پوسٹ کو فرضی دعویٰ کے ساتھ شیئر کرنے والے فیس بک پیج ’یو اینڈ می‘ کی سوشل اسکیننگ کرنے کی۔ ہم نے پایا کہ اس پیج سے این آر سی کی حمایت میں متعدد پوسٹ شیئر کئے جا چکے ہیں۔ علاوہ ازیں اس پیج کو 115 صارفین فالوو کرتے ہیں۔
نتیجہ: ہم نے اپنی پڑتال میں پایا کہ ویڈیو اصل میں بنگلہ دیش کا اور 2013 کا ہے۔ ویڈیو کا این آر سی یا آسام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اگر آپ کو ایسی کسی بھی خبر پر شک ہے جس کا اثر آپ کے معاشرے اور ملک پر پڑ سکتا ہے تو ہمیں بتائیں۔ ہمیں یہاں جانکاری بھیج سکتے ہیں۔ آپ ہم سے ای میل کے ذریعہ رابطہ کر سکتے ہیں contact@vishvasnews.com
اس کے ساتھ ہی واٹس ایپ (نمبر9205270923 ) کے ذریعہ بھی اطلاع دے سکتے ہیں