فیکٹ چیک: جے این یو کے ’ضعیف طالب علم‘ کے نام پر وائرل ہوئی آسام کی تصویر

نئی دہلی (وشواس نیوز)۔ جے این یو سے منسلک تمام فرضی خبروں کو وائرل کیا جا رہا ہے۔ وشواس نیوز کے ہاتھ ایک تصویر لگی جس میں ایک بزرگ شخص کے ساتھ پولیس اہلکار کی ٹوپی پہنے ایک نوجوان کو دیکھا جا سکتا ہے۔ سوشل میڈیا صارفین کا دعویٰ ہے کہ اس تصویر میں نظر آرہے ضعیف شخص جے این یو کے طالب علم ہیں اور وہ قریب میں کھڑے نوجوان کے انکل ہیں۔

وشواس نیوز نے معاملہ کی تفتیش کی اور ہم نے پایا کہ اس تصویر کا جے این یو سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ یہ تصویر رواں سال مئی کی ہے۔ جب تصویر میں نظر آرہے بزرگ شخص راحت علی کو گولپاڑہ جیل سے ضمانت دی گئی تھی۔ آسام کے رہائشی راحت علی کو تین سال قبل بنگلہ دیشی ہونے کے شبہ میں ڈیٹنشن سنٹر بھیجا گیا تھا، رواں سال مئی میں انہیں عدالت کی جانب سے ضمانت دی گئی۔ علاوہ ازیں قریب میں کھڑا نوجوان ان کا بیٹا لکمان علی ہے۔ لکمان کی تصویر کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر ان کے سر پر پولیس کی ٹوپی لگائی گئی ہے۔

کیا ہے وائرل پوسٹ میں

فیس بک صارف ’دیپک پائی‘ نے 21 نومبر کی ایک تصویر شیئر کی جس میں ایک بزرگ شخص اور ان کے قریب میں پولیس کی ٹوپ پہنے ایک نوجوان کو دیکھا جا سکتا ہے۔ تصویر کے اندر لکھا ہے
”cop finds his lost uncle studying in JNU campus during a brawl between PhD students”.
جے این یو کے پی ایچ ڈی طلباء کے ساتھ ہوئی جھڑپ میں پولیس اہلکار کو اپنے گمشدہ انکل مل گئے‘‘۔

پڑتال

ہم نے اپنی پڑتال کا آغاز کیا اور سب سے پہلے وائرل تصویر کا رورس امیج سرچ کیا۔ سرچ کرتے ہی متعدد خبروں کے لنک ہمارے ہاتھ لگے۔ تمام لنک میں ہمیں وہیں تصویر نظر آئی جسے اب جے این یو کے نام سے وائرل کیا جا رہاہے۔

ہر لنک میں یہ خبر مئی 2019 کو شائع ہوئی ملی۔ ’دا ہندو‘ کی نیوز ویب سائٹ پر ہم گئی وہاں بھی ہمیں وائرل تصویر نظرآئی، حالاںکہ نوجوان شخص کے سر پر ہمیں کوئی ٹوپی نہیں دکھی۔ علاوہ ازیں تصویر کے فوٹو کریڈیٹ میں ’دا ہندو‘ کا نام نظر آیا اور تصویر کے نیچے لکھا ہے، ’’راحت علی اور ان کا بیٹا لکمان علی‘‘۔ 12مئی 2019 کو شائع ہوئی خبر کے مطابق، ’’آسام کے رات علی سات مئی کو گولپاڑہ سنٹرل جیل سے تین سال بعد چھوٹے ہیں۔ ان پر الزام تھا کہ وہ ’بنگلہ دیشی‘ ہیں۔ کواسی جوڈیشیئل فارنسر ٹربیونل ایسے معاملوں کی سنوائی کر رہا ہے‘‘۔ خبر میں مزید بتایا گیا کہ، ’’60 سال قبل پرائمری اسکول سے تعلیم کو الوداع کہنے والے راحت کو ٹربیونل نے عمر میں فرق کے سبب ان کی شہریت پر شبہ کیا تھا‘‘۔ پوری خبر یہاں پڑھ سکتے ہیں۔

اب یہ تو واضح ہو چکا تھا کہ وائرل تصویر کا جے این یو سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، لیکن یہ جاننا باقی تھا کہ اس تصویر کو کہاں سے وائرل کیا گیا۔ اپنی اس تفتیش کے لئے ہم نے وائرل تصویر کے ساتھ دئے گئے دعویٰ کو گوگل پر سرچ کیا اور ہمارے ہاتھ 20 نومبر 2019 کو شائع ہوا ’سٹائیر ڈاٹ ٹوڈے‘ کا ایک آرٹیکل لگا۔ اس آرٹیکل میں وہی سرخی اور ایڈیٹ تصویر نظر آئی جسے اب وائرل کیا جا رہا ہے۔ آپ کو بتا دیں کہ یہ سٹائر ٹوڈے ایک طنزیہ ویب سائٹ ہے۔

شائع آرٹیٹل کے آخر میں ہمیں ایک نوٹ بھی ملا جس میں لکھا ہوا تھا کہ ’’خبر میں بتایا گیا معاملہ پیش نہیں آیا ہے اور اس آرٹیکل میں استعمال کی گئی تصویر کا اس خبر سے کوئی لینا دینا نہیں ہے‘‘۔

سٹائر ٹوڈے ویب سائٹ کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے ہم ان کے اباوٹ اس سیکشن میں گئے۔ جس میں صاف طور پر لکھا تھا کہ سٹائر ٹوڈے ایک طنزیہ نیوز ویب سائٹ ہے۔ اور اس میں شائع تمام خبریس مزاحیہ ہوتی ہیں۔

اب معاملہ مکمل طور پر واضح ہو چکا تھا، لیکن مزید تصدیق کے لئے ہم نے آسام کے گولپاڑہ ے اس وقت کے جیل سپرنٹ ٹینڈینٹ رنجیت بیشیا سے رابطہ کیا اور وائرل تصویر شیئر کی۔ جس کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ، ’’اسی سال مئی میں عدالت کی جانب سے راحت علی کو ضمان دی گئی ہے۔ یہ تصویر اسی وقت کی ہے اور اس کا جے این یو سے کوئی لینا دینا نہیں ہے‘‘۔

اب باری تھی اس پوسٹ کو فرضی حوالے کے ساتھ وائرل کرنے والے فیس بک صارف دیپک پائی کی سوشل اسکیننگ کرنے کی۔ ہم نے پایا کہ صارف کا تعلق کرناکٹ کے پلیمار سے ہے، وہیں اس پروفائل سے ایک مخصوص آئیڈیولاجی کی جانب متوجہ خبروں کو شیئر کیا جاتا ہے۔

نتیجہ: وشواس نیوز کی پڑتال میں پتہ چلا کہ وائرل کی جا رہی تصویر اور دعویٰ دونوں ہی فرضی ہیں۔ تصویر میں نظر آرہے شخص جے این یو کے طالب علم نہیں بلکہ آسام کے رہائیشی ہیں علاوہ ازیں ان کے قریب میں کھڑا نوجوان پولیس اہلکار نہیں ہے اس کے سر پر ایڈیٹنگ ٹولس کی مدد سے ٹوپی لگائی گئی ہے۔

False
Symbols that define nature of fake news
مکمل سچ جانیں...

اگر آپ کو ایسی کسی بھی خبر پر شک ہے جس کا اثر آپ کے معاشرے اور ملک پر پڑ سکتا ہے تو ہمیں بتائیں۔ ہمیں یہاں جانکاری بھیج سکتے ہیں۔ آپ ہم سے ای میل کے ذریعہ رابطہ کر سکتے ہیں contact@vishvasnews.com
اس کے ساتھ ہی واٹس ایپ (نمبر9205270923 ) کے ذریعہ بھی اطلاع دے سکتے ہیں

Related Posts
Recent Posts