وشواس نیوز نے اپنی پڑتال میں پایا کہ وائرل کی جا رہی تصویر سال 2018 سے سوشل میڈیا پر موجود ہے، اس تصویر کا حال میں پاکستان میں ہوئے مظاہرے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
نئی دہلی (وشواس نیوز)۔ سوشل میڈیا پر ایک جلتے ہوئے رکشہ کی تصویر وائرل ہو رہی ہے اور اس کے ساتھ دعوی کیا جا رہا ہے کہ گزشتہ روز پاکستان میں ہوئے مظاہرے کی یہ تصویر ہے۔ اور کسی عاشق رسول نے رکشہ کو آگ کے حوالے کر دیا ہے۔ وشواس نیوز نے اپنی پڑتال میں پایا کہ وائرل کی جا رہی تصویر سال 2018 سے سوشل میڈیا پر موجود ہے، اس تصویر کا حال میں پاکستان میں ہوئے مظاہرے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
فیس بک صارف، ’ایم اے خان‘ نے ’آل پاکستان پی ٹی آئی فینس‘ نام کے فیس بک پیج پر ایک جلتے ہوئے رکشہ کی تصویر کو اپ لوڈ کی جس پر لکھا تھا،’کسی سچے عاشق رسول نے ایک غریب کے گستاخ رکشے کو جلا کر جنت کا ٹکٹ حاصل کر لیا‘‘۔
پوسٹ کے آرکائیو ورژن کو یہاں دیکھیں۔
اپنی پڑتال کا آغاز کرتے ہوئے سب سے پہلے ہم نے نیوز سرچ کے ذریعہ یہ جاننے کی کوشش کیا کہ کیا پچھلے دنوں پاکستان میں بڑے پیمانے پر کوئی احتجاج ہوئے ہیں۔ سرچ میں ہمیں ڈی ڈبلو اردو کی 13 اپریل کو شائع ہوئی ایک خبر ملی جس میں بتایا گیا کہ، ’علامہ سعد رضوی نے ایک فرانسیسی جریدے میں حضرت محمد کے کارٹون کی اشاعت پرحکومت پاکستان سے فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس کے بعد انتہائی دائیں بازو کی اسلام پسند جماعت تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے سربراہ کو’امن و قانون برقرار رکھنے ‘ کے مد نظر کل لاہور سے گرفتار کر لیا گیا تھا۔ سعد حسین رضوی کی گرفتاری کے بعد ٹی ایل پی کے کارکنوں نے ملک کے مختلف حصوں میں مظاہروں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ اس دوران تشدد کے واقعات میں کم از کم دو افراد کی ہلاکت اور متعدد دیگر کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ زخمی ہونے والوں میں پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔ مکمل خبر یہاں پڑھیں اور یہاں پڑھیں۔
اپنی تفتیش کو آگے بڑھاتے ہوئے ہم نے گوگل رورس امیج کے ذریعہ وائرل تصویر کو سرچ کیا۔ سرچ میں ہمیں وائرل تصویر 6 نومبر 2018 کو اے آر وائے کی نیوز ویب سائٹ پر شائع ہوئی ایک خبر میں ملی۔ خبر میں دی گئی معلومات کے مطابق، ’آسیہ بی بی کیو بری کئے جانے کو لے کر تین روزہ ملک گیر احتجاج گذشتہ ہفتے اس وقت ختم ہوا جب وفاقی حکومت نے مظاہرین کے ساتھ معاہدہ کیا۔ وہیں چیف جسٹس نے وفاق کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومتوں کو بھی ہدایت کی کہ وہ ان مظاہروں کے دوران سرکاری و نجی املاک کو ہونے والے نقصان کا جائزہ لیں اور تین دن میں اپنی متعلقہ رپورٹ پیش کریں۔ مکمل خبر یہاں دیکھیں۔
فیس بک پیج ’کراچی ڈمپر‘ نے وائرل تصویر کو 1 نومبر 2018 کو شیئر کیا ہے۔
وائرل کی جا رہی تصویر سال 2018 سے سوشل میڈیا پر موجود ہے، لیکن وشواس نیوز اس بات کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کر سکتا ہے، کہ یہ تصویر کس سال کی ہے۔ حالاںکہ یہ واضح ہے کہ تصویر کے ساتھ کیا جا رہا دعوی غلط ہے، یہ تصویر حال میں ہوئے احتجاج کی نہیں بلکہ پرانی ہے۔
تصویر سے جڑی تصدیق کے لئے جاگرن نیو میڈیا کے سینئر ایڈیٹر پرتیوش رنجن نے پاکستان کی سینئر صحافی لبنی جراج نقوی سے رابطہ کیا اور ان کے ساتھ وائرل پوسٹ شیئر کی۔ انہوں نے ہمیں بتایا، ’یہ تصویر گزشتہ روز ہوئے احتاجا کی نہیں ہے۔ گوگل پر سب سے پرانی یہ تصویر سال 2018 میں اپ لوڈ ہوئی تھی‘‘۔
پوسٹ کو فرضی دعوی کے ساتھ شیئر کرنے والے فیس بک صارف ایم اے خان کی سوشل اسکیننگ میں ہم نے پایا کہ صارف کا تعلق پاکستان سے کراچی سے ہے۔
نتیجہ: وشواس نیوز نے اپنی پڑتال میں پایا کہ وائرل کی جا رہی تصویر سال 2018 سے سوشل میڈیا پر موجود ہے، اس تصویر کا حال میں پاکستان میں ہوئے مظاہرے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اگر آپ کو ایسی کسی بھی خبر پر شک ہے جس کا اثر آپ کے معاشرے اور ملک پر پڑ سکتا ہے تو ہمیں بتائیں۔ ہمیں یہاں جانکاری بھیج سکتے ہیں۔ آپ ہم سے ای میل کے ذریعہ رابطہ کر سکتے ہیں contact@vishvasnews.com
اس کے ساتھ ہی واٹس ایپ (نمبر9205270923 ) کے ذریعہ بھی اطلاع دے سکتے ہیں