فیکٹ چیک: 2015 کی ترکی کی تصویر کو کیا جا رہا حالیہ شامی حادثہ سے جوڑ کر وائرل

وشواس نیوز نے وائرل پوسٹ کی پڑتال میں پایا کہ وائرل کیا جا رہا دعوی گمراہ کن ہے۔ یہ تصویر 2015 کی ترکی کی ہے، جب ایک کشتی حادثہ کا شکار ہوئی تھی۔ اس تصویر کا حالیہ معاملہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

نئی دہلی (وشواس نیوز)۔ گزشتہ روز لبنان سے روانہ ہونے والی کشتی شام کے سمندر میں ڈوبنے کا معاملہ پیش آیا جس میں متعدد تارکین وطن ہلاک ہوگئے۔ اسی ضمن میں ایک تصویر وائرل ہو رہی ہے جس میں سمندر کے کنارے کپڑے، جوتے اور بیگ وغیرہ پڑے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ تصویر کو شیئر کرتے ہوئے صارفین یہ دعوی کر رہے ہیں کہ یہ تصویر طرطوس بیچ میں ہوئے حالیہ حادثہ کی ہے جس میں لبنان کے تارکین وطن کشتی میں سوار تھے۔ اور ان کی کشتی حادثہ کا شکار ہو گئی۔ وشواس نیوز نے وائرل پوسٹ کی پڑتال میں پایا کہ وائرل کیا جا رہا دعوی گمراہ کن ہے۔ یہ تصویر 2015 کی ترکی کی ہے، جب ایک کشتی حادثہ کا شکار ہوئی تھی۔ اس تصویر کا حالیہ معاملہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

کیا ہے وائرل پوسٹ میں؟

فیس بک صارف نے وائرل پوسٹ کو شیئر کرتے ہوئے لکھا، ’طرطوس کا ساحل آج صبح اس طرح بن گیا.. شامی، لبنانی اور فلسطینیوں کو لے جانے والی کشتی کے متاثرین کے کپڑے سمندر کے کنارے پڑے ہوئے ہیں‘۔

پوسٹ کے آرکائیو ورژن کو یہاں دیکھیں۔

پڑتال

اپنی پڑتال کو شروع کرتے ہوئے سب سے پہلے ہم نے گوگل رورس امیج کے ذریعے وائرل تصویر کو سرچ کیا۔ سرچ میں ہمیں یہ تصویر ہمیں 3 ستمبر 2015 کو دا گارجیئن کی ویب سائٹ پر شائع ہوئی خبر میں ملی۔یہاں خبر میں دی گئی معلومات کے مطابق، ’2 ستمبر کو ترکی کے شہر بودرم کے ساحل پر شامی مہاجرین کا سامان۔ بدھ کو مغربی ترکی میں دو کشتیاں ڈوبنے سے گیارہ مہاجرین ڈوب گئے۔ مکمل خبر یہاں پڑھ سکتے ہیں۔

مزید سرچ میں ہمیں یہی تصویر ہمیں الامی ڈاٹ کام کی ویب سائٹ پر بھی ملی۔ یہاں تصویر کے ساتھ دی گئی معلومات کے مطابق 2 ستمبر 2015 کی یہ تصویر اس وقت کی ہے جب شامی پناہ گزنیوں کا سامان سمندر کے کنارے نظر آرہا ہے۔ نجی ڈوگن نیوز ایجنسی کے مطابق، بدھ کے روز مغربی ترکی کے بحیرہ ایجیئن میں دو کشتیاں الگ الگ ڈوبنے سے گیارہ شامی مہاجرین ڈوب گئے اور پانچ دیگر لاپتہ ہو گئے‘۔

وائرل تصویر سے متعلق تصدیق حاصل کرنے کے لئے ہم نے ترکی کے صحافی ارکن انکان سے رابطہ کیا اور وائرل پوسٹ ان کے ساتھ شیئر کی۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ یہ تصویر ترکی کی ہی ہے لیکن بہت سالوں پرانی ہے۔

خبروں کے مطابق، ’ 22 ستمبر 2022 کو لبنانی اور شامی تارکین وطن کو یورپ لے جانے والی ایک کشتی بحیرہ روم میں ڈوبنے سے کم از کم 73 افراد ہلاک ہو گئے، شامی حکام نے جمعہ کی صبح سرکاری ٹی وی پر اعلان کیا کہ لبنان کے معاشی بحران کے باعث ملک سے نقل مکانی کی سب سے مہلک ریکارڈ کی گئی ہے‘۔ مکمل خبر یہاں پڑھیں۔

گمراہ کن پوسٹ کو شیئر کرنے والے فیس بک صارف کی سوشل اسکیننگ میں ہم نے پایا کہ صارف کو 63 ہزار لوگ فالوو کرتےہیں۔

نتیجہ: وشواس نیوز نے وائرل پوسٹ کی پڑتال میں پایا کہ وائرل کیا جا رہا دعوی گمراہ کن ہے۔ یہ تصویر 2015 کی ترکی کی ہے، جب ایک کشتی حادثہ کا شکار ہوئی تھی۔ اس تصویر کا حالیہ معاملہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

Misleading
Symbols that define nature of fake news
مکمل سچ جانیں...

اگر آپ کو ایسی کسی بھی خبر پر شک ہے جس کا اثر آپ کے معاشرے اور ملک پر پڑ سکتا ہے تو ہمیں بتائیں۔ ہمیں یہاں جانکاری بھیج سکتے ہیں۔ آپ ہم سے ای میل کے ذریعہ رابطہ کر سکتے ہیں contact@vishvasnews.com
اس کے ساتھ ہی واٹس ایپ (نمبر9205270923 ) کے ذریعہ بھی اطلاع دے سکتے ہیں

Related Posts
Recent Posts