فیکٹ چیک: کشمیر کے نام پر وائرل ہو رہی تصویر لکھنئو پولیس کی ہے، 9 سال قبل پیش آیا تھا معاملہ
وشواس نیوز تفتیش میں پتہ چلا کہ کشمیر کے نام پر وائرل تصویر یو پی پولیس کے ظلم کی پرانی تصویر ہے۔ کولاج کی دیگر دو تصاویر صحیح ہیں۔
- By: Ashish Maharishi
- Published: Jun 16, 2020 at 01:52 PM
- Updated: Aug 30, 2020 at 08:08 PM
نئی دہلی (وشواس نیوز)۔ سوشل میڈیا میں تین تصاویر کا ایک کولاج وائرل ہو رہا ہے۔ ان تصاویر کے ذریعہ امریکہ، فلسطین اور کشمیر میں ظلم کی بات کی جا رہی ہے۔
وشواس نیوز کی پڑتال میں پتہ چلا کہ کشمیر کے نام پر وائرل ہو رہی تصویر یو پی پولیس کے ظلم کی ہے 9 سال پرانی تصویر ہے۔ اس تصویر کو جان بوجھ کر کشمیر کے نام پر وائرل کیا جا رہا ہے۔ دیگر دو تصاویر کے ساتھ کیا گیا دعوی صحیح ہے۔ یہ دو تصاویر امریکہ اور فلسطین کی ہیں۔
کیا ہے وائرل پوسٹ میں؟
عفت نام کی ٹویٹر ہینڈل سے ایک کولاج کو ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا گیا
P1- An American policeman kneeling on late George Floyd P2- An Israeli soldier kneeling on a Palestinian’s neck P3- An Indian soldier kneeling on Kashmiri’s neck They all are same picture. Speak against all. Being selective is being a hypocrite.
پڑتال
وشواس نیوز نے وائرل پوسٹ میں موجود کولاج میں استعمال کی گئی تینوں تصاویر کی حقیقت پتہ لگانا شروع کیا۔ سب سے پہلے ہم نے پہلی تصویر گوگل رورس کے ذریعہ سرچ کیا ۔ ہمیں پتہ چلا کہ امریکہ کے منیسوٹا میں گزشتہ ماہ مئی میں منوپولس پولیس محکمہ کے ایک افسر نے بلیک امریکی شہری جارج فلائڈ پر قابو پانے کے لئے اس کی گردن پر گھٹنے سے دباؤ بنائے رکھا تھا، جس کے سبب جارج فلائڈ کی موت ہو گئی۔ اس موت کے بعد پوری دنیا میں احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ مکمل خبر آپ یہاں دیکھ سکتے ہیں۔
اسی طرح ہم نے دوسری تصویر سے منسلک معلومات جمع کرنا شروع کر دیا۰ ہمیں یہ تصویر ہارٹز ڈاٹ کام پر ملی۔ اسے رائٹرس نے 20 ستمبر 2016 کو لے تھی۔ تصویر فلسطین کے ہبرین کی ہے۔ یہ آپ یہاں دیکھ سکتے ہیں۔
اب باری تھی کشمیر کے نام پر وائرل تصویر کی حقیقت جاننے کی۔ یہ تصویر پہلی بھی وائرل ہو چکی ہے۔ دراصل یہ تصویر 9 مارچ 2011 کی ہے۔ اس وقت اکھیلیش یادو کو لکھنئو ایئر پورٹ سے حراست میں لیا گیا تھا۔ جس کے بعد لوہیا واہنی کے سربراہ آنند بھدوریا کو مظاہرے کی وجہ اس وقت کے ڈی آئی جی دھرو کانت ٹھاکر نے زمین پر گرا کر پیٹا تھا۔ وائرل تصویر کو لکھنئو کے فوٹو گرافر پرمود ادھیکاری نے کھینچا تھا۔ وشواس نیوز سے بات چیت میں انہوں نے تفصیل سے اس کے بارے میں بتایا۔ پرمود ادھیکاری نے کہا کہ، ’وائرل تصویر سال 2011 کی ہے۔ تصویر میں زمین پر گرے ہوئے نظر آرہے شخص آنند بھدوریا ہیں، جو ابھی ایس پی سے ایم ایل سی ہیں، جبکہ افسر کا نام ڈی کے ٹھاکر ہیں‘‘۔
پوری پڑتال کو یہاں پڑھ سکتے ہیں۔
اب باری تھی اس پوسٹ کو فرضی دعوی کے ساتھ شیئر کرنے والی ٹویٹر صارف عفت کی سوشل اسکیننگ کرنے کی۔ ہم نے پایا کہ اس صارف کو 25 صارفین فالوو کرتے ہیں علاوہ ازیں 2015 میں مذکورہ صارف کے ذریعہ ٹویٹر جوائین کیا گیا ہے۔
نتیجہ: وشواس نیوز تفتیش میں پتہ چلا کہ کشمیر کے نام پر وائرل تصویر یو پی پولیس کے ظلم کی پرانی تصویر ہے۔ کولاج کی دیگر دو تصاویر صحیح ہیں۔
- Claim Review : اس میں ایک تصویر کشمیر ظلم کی ہے۔
- Claimed By : Twitter User- iff.at
- Fact Check : گمراہ کن
مکمل حقیقت جانیں... کسی معلومات یا افواہ پر شک ہو تو ہمیں بتائیں
سب کو بتائیں، سچ جاننا آپ کا حق ہے۔ اگر آپ کو ایسے کسی بھی میسج یا افواہ پر شبہ ہے جس کا اثر معاشرے، ملک یا آپ پر ہو سکتا ہے تو ہمیں بتائیں۔ آپ نیچے دئے گئے کسی بھی ذرائع ابلاغ کے ذریعہ معلومات بھیج سکتے ہیں۔