وشواس نیوز نے اپنی پڑتال میں پایا کہ یہ وائرل کی جا رہی تصویر 25 مئی 2016 کے لیبیا کے ساحل کی ہے۔ اس تصویر کا حال میں شام میں تارکین وطن کی کشتی پلٹے جانے کے معاملہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
نئی دہلی (وشواس نیوز)۔ گذشتہ روز شام کے ساحل پر کشتی ڈوبنے کا معاملہ پیش آیا جس میں بہت سے تارکین وطن موجود تھے۔ اس معاملہ کے پیش آنے کے بعد سے سوشل میڈیا پر متعدد پرانی تصویر وائرل ہونی شروع ہو گئی ہیں۔ اسی کڑی میں ایک تصویر وائرل ہو رہی ہے جس میں بہت سے لوگوں کو ایک بڑی کے بوٹ کے اندر دیکھا جا سکتی ہے اور وہ بوٹ پانی میں تقریبا ڈوبتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ صارفین تصویر کو حالیہ معاملہ سے جوڑتے ہوئے شیئر کر رہے ہیں ۔ جبکہ ہم نے اپنی پڑتال میں پایا کہ یہ وائرل کی جا رہی تصویر 25 مئی 2016 کے لیبیا کے ساحل کی ہے۔ اس تصویر کا حالیہ شام کے سمندر میں تارکین وطن کی کشتی پلٹنے کے معاملہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
فیس بک صارف نے وائرل پوسٹ کو شیئر کرتے ہوئے لکھا، ’شام کے ساحل پر تارکین وطن کی کشتی ڈوبنے سے 71 افراد ہلاک‘۔
پوسٹ کے آرکائیو ورژن کو یہاں دیکھیں۔
اپنی پڑتال کو شروع کرتے ہوئے سب سے پہلے ہم نے گوگل رورس امیج کے ذریعے وائرل تصویر کو سرچ کیا۔ سرچ میں ہمیں یہ تصویر ’ایجپٹ ٹوڈے‘ کی ویب سائٹ پر شائع ہوئے ایک آرٹیکل میں ملی۔ یہاں تصویر کے ساتھ دئے گئے کیپشن کے مطابق یہ تصو یر 2016 کی لیبیا کی ہے۔
اسی بنیاد پر ہم نے اپنا سرچ آگے بڑھایا اور ہمیں یہی وائرل تصویر دا گارجیئن کی ویب سائٹ پر 2 جون 2016 کو شائع ہوئی خبر میں ملی۔ یہاں تصویر کے ساتھ دئے گئے کیپشن کے مطابق، ’25 مئی کو اطالوی بحریہ کے جہازوں کے ریسکیو آپریشن سے پہلے تارکین وطن اپنی ڈوبنے والی کشتی سے لپٹے ہوئے ہیں‘۔ یہاں تصویر کا کریڈٹ رائٹرس کو دیا گیا ہے۔
سرچ کئے جانے پر ہمیں یہ تصویر ہمیں رائٹرس کی ویب سائٹ پر بھی اپلوڈ ہوئی ملی۔ یہاں تصویر کے ساتھ دی گئی معلومات میں بتایا گیا کہ، ’25 مئی 2016 کو لیبیا کے ساحل پر تارکین وطن سے بھری لکڑی کی مچھلی پکڑنے والی ایک بڑی کشتی الٹ گئی جس میں 550 سے زائد افراد سوار تھے۔ وہیں تصویر کے ساتھ مزید جانکاری میں بتایا گیا کہ ’اطالوی بحریہ کے بحری جہازوں کے ریسکیو آپریشن سے قبل تارکین وطن کو ڈوبتی ہوئی کشتی پر دیکھا جا رہا ہے‘۔
وائرل تصویر سے متعلق تصدیق حاصل کرنے کے لئے ہم نے شام کے صحافی اور گیٹی امیجز کے فوٹوگرافر عمر الحاج سے رابطہ کیا اور انہوں نے ہمیں بتایا کہ گزشتہ روز شام کے ساحل میں کشتی پلٹنے کا حادثہ پیش آیا تھا جس میں بہت سے تارکین وطن کی جانیں چلی گئیں اور متعدد زیر علاج ہیں۔
خبروں کے مطابق، ’ 22 ستمبر 2022 کو لبنانی اور شامی تارکین وطن کو یورپ لے جانے والی ایک کشتی بحیرہ روم میں ڈوبنے سے کم از کم 73 افراد ہلاک ہو گئے، شامی حکام نے جمعہ کی صبح سرکاری ٹی وی پر اعلان کیا کہ لبنان کے معاشی بحران کے باعث ملک سے نقل مکانی کی سب سے مہلک ریکارڈ کی گئی ہے‘۔ مکمل خبر یہاں پڑھیں۔
گمراہ کن پوسٹ کو شیئر کرنے والے فیس بک صارف کی سوشل اسکیننگ میں ہم نے پایا کہ صارف کا تعلق رلوپنڈی پاکستان سے ہے۔
نتیجہ: وشواس نیوز نے اپنی پڑتال میں پایا کہ یہ وائرل کی جا رہی تصویر 25 مئی 2016 کے لیبیا کے ساحل کی ہے۔ اس تصویر کا حال میں شام میں تارکین وطن کی کشتی پلٹے جانے کے معاملہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اگر آپ کو ایسی کسی بھی خبر پر شک ہے جس کا اثر آپ کے معاشرے اور ملک پر پڑ سکتا ہے تو ہمیں بتائیں۔ ہمیں یہاں جانکاری بھیج سکتے ہیں۔ آپ ہم سے ای میل کے ذریعہ رابطہ کر سکتے ہیں contact@vishvasnews.com
اس کے ساتھ ہی واٹس ایپ (نمبر9205270923 ) کے ذریعہ بھی اطلاع دے سکتے ہیں