فیکٹ چیک: یو پی کے سدھارتھ نگر میں ایک ہی برادری کے دو خاندانوں کے مابین ہوئے جھگڑے کے ویڈیو کو فرقہ وارانہ دعوی کے ساتھ کیا جا رہا وائرل

ہندو انتہاپسندوں کے ملسم خاندان کو پٹائی کئے جانے کے دعوی کے ساتھ وائرل ہو رہا ویڈیو غلط ہے۔ اترپردیش کے سدھارتھ نگر ضلع میں ایک ہی برادری سے تعلق رکھنے والے دو خاندان کے مابین پیش آئے معاملہ کے ویڈیو کو فرقہ وارانہ رنگ دے کر فرضی دعوی کے ساتھ وائرل کیا جا رہا ہے۔

نئی دہلی (وشواس نیوز)۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہے ایک ویڈیو میں کچھ لوگوں کو ایک شخص کو بےرحمی سے پیٹتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس ویڈیو کو فرقہ وارانہ رنگ دیکر شیئر کیا جا رہا ہے۔ دعوی کیا جا رہا ہے کہ ویڈیو میں پٹائی کا شکار ہو رہا خاندان مسلمان ہے اور اسے پیٹنے والے ہندوں مذہب کے لوگ ہیں۔

وشواس نیوز کی پڑتال میں یہ دعوی غلط نکلی۔ اصل میں وائرل ہو رہے ویڈیو میں ملزم اور مظلوم دونوں ایک ہی برادری سے تعلق رکھتے ہیں اوریہ آپسی لڑائی کا معاملہ تھا۔

کیا ہے وائرل پوسٹ میں؟

ٹویٹر صارف ’درة محمد السيد‘ نے ویڈیو کو شیئر کرتے ہوئے لکھا ہے
‘‘Look at how extremists in India today are brutally beating this family…Muslims in India are killed under the cover of the fascist Indian government…..”
اردو میں اسے ایسے پڑھا جا سکتا ہے۔ ’’دیکھیں ہندوستان میں انتہاپسند اس مسلم خاندان کو پیٹ رہے ہیں اور یہ سب کچھ فاشسٹ ہندوستانی حکومت کے تحت ہو رہا ہے۔ ہندوتوا کا نظریہ دنیا کے لئے بہت خطرناک ہے‘‘۔

پڑتال

ان ویڈ ٹول کی مدد سے ملے وائرل ویڈیو کے کی فریمس کو رورس امیج کرنے پر ہمیں ٹویٹر صارف پرشانت شکلا کی پروفائل پر یہی ویڈیو ملا، جس میں انہوں نے اسے سدھارتھ نگر کا بتایا ہے۔

انہوں نے اس ویڈیو کو شیئر کرتے ہوئے لکھا ہے، ’’سدھارتھ نگر جنگل راج کیسےایک خاندان کو بےرحمی سے مارا جا راہ ہے، لوگ خاموشی سے دیکھ رہے ہیں، حکومت کوما میں ہے اور ملزم بےخوف ہو چکے ہیں‘‘۔ مکمل پوسٹ یہاں دیکھیں۔

انہوں نے اس ویڈیو میں اترپردیش پولیس کو بھی ٹیگ کیا ہے۔ حالاںکہ اس ویڈیو کو ایک دیگر صارف نے بھی ہندو مسلم کے اینگل کے ساتھ ویڈیو کو شیئر کیا ہے، جس کے سبب سدھارتھ نگر پولیس کو معاملہ سے منسلک وضاحت جاری کرنی پڑی۔

سدھارتھ نگر پولیس کی جانب سے دی گئی وضاحت کے مطابق ، ‘تھانہ اٹوا کے علاقے پپری بوجورگ میں رہنے والے اعزاز نے پولیس کو بتایا کہ ان کے ہی گاؤں کے افتخار، انور، محمد کلیم اور لیم سائی کے درمیان بچوں کی بات کو لے کر فساد ہوا، جس کے بعد یہ سبھی اسے گالی دیتے ہوئے ڈنڈوں سے مارنے لگے۔ اس دوران، اعجاج، ان کی بیوی عالیہ اور لڑکے غلام محمد رضا کو چوٹیں آئیں‘۔

پولیس کی طرف سے کہا گیا ہے کہ دونوں فریق ایک مذہب کے ہیں اور یہ باہمی جھگڑا بچوں کے معاملے پر لڑائی میں بدل گیا۔ پولیس نے بھی خبردار کیا ہے کہ اس ویڈیو کو فرقہ وارانہ رنگ سے شیئر نہ کریں۔ پولیس کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق ، ’’اس معاملے میں ، تھانہ اٹوا کی جانب سے متعلقہ دفعات کے تحت مقدمہ درج کرنے کے بعد تین افراد کو حراست میں لے کر قانونی کارروائی کی گئی‘‘۔

وشواس نیوز نے اس معاملہ کو لے کر سدھارتھ نگر پولیس کے سوشل میڈیا سیل سے رابطہ کیا۔ سوشل میڈیا سیل انچارج منیش کمار جیسوال کی جانب سے ہمیں اس معاملہ میں سدھارتھ نگر کے ایس پی وجے دھل کا ویڈیو بیان بھیجا گیا، جس کے مطابق، ’’آج (6 جولائی) کو اٹوا تھانہ علاقہ کے پیپری بجرگ گاؤں میں پڑوس کے رہنے والے ایک ہی برادری کے دو خاندانوں کے درمیان بچے کی بات کو لے کر فساد ہوا تھا، جس کے بعد بڑے لوگ بھی شامل ہو گئے۔ اس معاملہ میں پولیس نے تین لوگوں کو گرفتار کیا، جو ویڈیو میں بھی نظر آرہے ہیں‘‘۔

اب باری تھی اس پوسٹ کو فرضی دعوی کو شیئر کرنے والی ٹویٹر صارف درة محمد السيد کی سوشل اسکینگ کرنے کی۔ ہم نے پایا کہ مذکورہ صارف کو 5026 صارفین فالوو کرتے ہیں۔

نتیجہ: ہندو انتہاپسندوں کے ملسم خاندان کو پٹائی کئے جانے کے دعوی کے ساتھ وائرل ہو رہا ویڈیو غلط ہے۔ اترپردیش کے سدھارتھ نگر ضلع میں ایک ہی برادری سے تعلق رکھنے والے دو خاندان کے مابین پیش آئے معاملہ کے ویڈیو کو فرقہ وارانہ رنگ دے کر فرضی دعوی کے ساتھ وائرل کیا جا رہا ہے۔

False
Symbols that define nature of fake news
مکمل سچ جانیں...

اگر آپ کو ایسی کسی بھی خبر پر شک ہے جس کا اثر آپ کے معاشرے اور ملک پر پڑ سکتا ہے تو ہمیں بتائیں۔ ہمیں یہاں جانکاری بھیج سکتے ہیں۔ آپ ہم سے ای میل کے ذریعہ رابطہ کر سکتے ہیں contact@vishvasnews.com
اس کے ساتھ ہی واٹس ایپ (نمبر9205270923 ) کے ذریعہ بھی اطلاع دے سکتے ہیں

Related Posts
Recent Posts