فیکٹ چیک: ہرن کے بچے کو بچاتے لڑکے کی یہ تصویر 2014 کی ہے، آسام کی نہیں

وشواس نیوز نے اپنی پڑتال میں پایا کہ یہ دعوی غلط ہے۔ اصل میں ہرن کی بچے کو بچاتے لڑکی یہ تصویر 2014، بنگلہ دیش کی ہے۔ ان تصاویر کا گزشتہ روز آسام میں آئے سیلاب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

نئی دہلی، وشواس نیوز۔ آسام میں سیلاب کے آنے کے بعد سے، ایک لڑکے کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہورہی ہے۔ اس تصویر میں یہ لڑکا سیلاب کے پانی سے ہرن کو بچانے کی کوشش کرتے دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ تصویریں اس دعوے کے ساتھ سوشل میڈیا پر شیئر کی جا رہی ہیں کہ یہ واقعہ آسام کا ہے۔ وشواس نیوز کو اپنی تفتیش میں پتہ چلا ہے کہ یہ دعوی غلط ہے۔ دراصل ہرن کے بچے کو بچانے والے لڑکے کی یہ تصویر بنگلہ دیش کی 2014 ہے۔ ان تصویروں کا آسام میں موجودہ سیلاب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

کیا ہو رہا ہے وائرل؟

سوشل میڈیا پر وائرل ان تصاویر میں ایک لڑکے کو سیلاب کے پانی سے ایک ہرن کو بچاتے ہوئے دیکھاجا سکتا ہے۔ فیس بک پیج ’عوام اعظم ‘ نے ان تصاویر کو شیئر کرتے ہوئے لکھا
“Real “Bahubali” of #Assam who saved a fawn from drowning.”

پوسٹ کا آرکائیو ورژن یہاں دیکھیں۔

پڑتال

ہم نے گوگل ریورس امیج کے ذریعے ان تصاویر کو تلاش کیا۔ تلاش کرتے وقت ہمیں فروری 2014 میں بنگلہ دیش میں آئے سیلاب سے متعلق ’’ڈیلی میل‘‘ نیوز پورٹل کی ایک رپورٹ ملی۔ اس خبر میں، ان وائرل تصویروں کے ساتھ لڑکے اور ہرن کی بھی ایسی ہی تصاویر تھیں۔ رپورٹ کے مطابق، یہ واقعہ بنگلہ دیش کے علاقے نواکھالی کا ہے۔ 6 فروری 2014 کو شائع ہونے والی خبر کے مطابق، ’’ایک بہادر لڑکے نے بے خوف ہوکر اپنی جان کو خطرے میں ڈال دیا اور ایک بے بس ہرن کے بچے کو ڈوبنے سے بچانے کے لئے حیرت انگیز بہادری کا مظاہرہ کیا۔‘‘ بلال نامی اس لڑکے نے اپنی بے باکی کا مظاہرہ کیا۔ یہ واقعہ بنگلہ دیش کے نواکھالی میں اس وقت پیش آیا جب تیز بارش اور تیزی سے بڑھتے ہوئے سیلاب کے دوران ہرن اپنے کنبے سے الگ ہوگیا‘‘۔

ہمیں یہ تصاویر بی بی این کمیونٹی ڈاٹ کام نام کی ویب سائٹ پر بھی ملیں۔ اس ویب سائٹ پر بھی ان تصاویر کے ساتھ خبر کو 2014 میں شائع کیا گیا تھا۔

ان دونوں ہی ویب سائٹ پر موجودہ معلومات کے مطابق، ان تصاویر کو وائلڈ لائف فوٹو گرافر حسیب الوحاب نے نواکھالی میں 2014 میں آیا سیلاب کے دوران کھینچا تھا۔

اس موضوع میں مزید تصدیق کے لئے ہم نے فوٹو گرافر حسیب الوحاب سے میل پر رابطہ کیا۔ ان تصاویر پر پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے ہمیں بتایا، ’’یہ تصاویر میں نے 2014 میں بنگلہ دیش میں کھینچی تھیں‘‘۔

فیس بک پیج ’آواز عوام‘ کی سوشل اسکیننگ میں ہم نے پایا کہ اس پیج کو 11،749 صارفین فالوو کرتے ہیں۔

نتیجہ: وشواس نیوز نے اپنی پڑتال میں پایا کہ یہ دعوی غلط ہے۔ اصل میں ہرن کی بچے کو بچاتے لڑکی یہ تصویر 2014، بنگلہ دیش کی ہے۔ ان تصاویر کا گزشتہ روز آسام میں آئے سیلاب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

False
Symbols that define nature of fake news
مکمل سچ جانیں...

اگر آپ کو ایسی کسی بھی خبر پر شک ہے جس کا اثر آپ کے معاشرے اور ملک پر پڑ سکتا ہے تو ہمیں بتائیں۔ ہمیں یہاں جانکاری بھیج سکتے ہیں۔ آپ ہم سے ای میل کے ذریعہ رابطہ کر سکتے ہیں contact@vishvasnews.com
اس کے ساتھ ہی واٹس ایپ (نمبر9205270923 ) کے ذریعہ بھی اطلاع دے سکتے ہیں

Related Posts
Recent Posts