فیکٹ چیک: یمن کی نہیں بلکہ 2020 کی شام کی ہے وائرل تصویر
وشواس نیوز نے اپنی پڑتال میں پایا کہ یہ دعوی غلط ہے۔ وائرل تصویر کا یمن سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ جنوری 2020 کی شام کے شہر ادلب کی فوٹو ہے۔
- By: Umam Noor
- Published: Nov 10, 2021 at 02:50 PM
- Updated: Nov 10, 2021 at 06:01 PM
نئی دہلی (وشواس نیوز)۔ سوشل میڈیا پر ایک تصویروائرل ہورہی ہے جس میں ایک زخمی بچی کو دیکھا جا سکتا ہے۔ تصویر کو شیئر کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر موجود صارفین یہ دعوی کر رہے ہیں کہ یہ حال میں یمن کے تعیز میں ہوئے بچے کے قتل کی فوٹو ہے۔ جب وشواس نیوزنےاس پوسٹ کی پڑتال کی تو ہم نے پایا کہ یہ دعوی غلط ہے۔ وائرل تصویر کا یمن سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ جنوری 2020 کی شام کے شہر ادلب کی فوٹو ہے۔
کیا ہے وائرل پوسٹ میں؟
وائرل تصویرکو اپ لوڈ کرتے ہوئے صارف نے اسے یمن کے تعز کا بتایا ہے۔
پوسٹ کے آرکائیو ورژن کو یہاں دیکھیں۔
پڑتال
اپنی پڑتال کو شروع کرتے ہوئے سب سے پہلے ہم نے گوگل رورس امیج سرچ کیا۔ سرچ میں ہمیں یہ تصویر سعودی گیزٹ نام کی ایک نیوز ویب سائٹ پر 11جنوری 2020 کو شائع ہوئے ایک آرٹیکل میں ملی۔ یہاں پر دی گئی معلومات کے مطابق یہ تصویر شام کے شمال مغربی شہر ادلب میں ہفتہ کے روز ہوئے فضائیہ حملہ میں زخمی ہوئی بچی کی ہے۔ اس تصویر کو اے پی کا کریڈٹ دیا گیا ہے وہیں خبر میں دی گئی مزید معلومات کے مطابق مذکورہ حملہ میں درجن بھر سے زیادہ شہریوں کے جانیں بحق ہو گئی۔ مکمل خبر یہاں دیکھیں۔
اے ایف پی کی ویب سائٹ پر سرچ کئے جانے پر ہمیں یہی وائرل تصویر ملی۔ یہاں اس فوٹو کے ساتھ دی گئی معلومات کے مطابق، ’11 جنوری 2020 کو شمال مغربی شہر ادلب پر حکومت کی حامی افواج کے فضائی حملے کے بعد ایک زخمی شامی بچہ علاج کے لیے کلینک میں لے جانے کے بعد درد میں رو رہا ہے‘۔ فوٹو کریڈٹ میں ہمیں عمر حج کدور نام لکھا ہوا نظر آیا۔
تصویر کے لئے ہم نے تصویر کو کھینچنے والے فوٹوگرافر عمر حج کرور سے ٹویٹر کے ذریعہ رابطہ کیا اور وائرل پوسٹ ان کے ساتھ شیئر کی۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ یہ فوٹو انہیں نے ہی شامی شہر ادلب میں جنوری 2020 میں کھینچی تھی۔
سوشل میڈیا صارفین وائرل تصویر کو تیس اکتوبر کے بعد سے یمن کے شہر تعز میں ہلاک ہوئے بچوں کے نام پر اس تصویر کو وائرل کر رہے ہیں۔ اردو العربیہ کی ویب سائٹ پر 31 اکتوبر 2021 کو دی گئی خبر کے مطابق، ’کل ہفتے کو ایرانی حمایت یافتہ حوثی ملیشیا نے یمن کے علاقے تعز میں وحشیانہ گولہ باری کی جس کے نتیجے میں ایک ہی خاندان کے کم سے کم تین بچے جاں بحق اور چھ زخمی ہوگئے۔ مکمل خبر یہاں دیکھیں۔
فرضی پوسٹ کو شیئر کرنے والے فیس بک صارف محي الدين نورالدين فیس بک کافی سرگرم رہتا ہے۔ لیکن اس سے جڑی کوئی بھی معلومات عوامی نہیں ہے۔
نتیجہ: وشواس نیوز نے اپنی پڑتال میں پایا کہ یہ دعوی غلط ہے۔ وائرل تصویر کا یمن سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ جنوری 2020 کی شام کے شہر ادلب کی فوٹو ہے۔
- Claim Review : صارفین یہ دعوی کر رہے ہیں کہ یہ حال میں یمن کے تعیز میں ہوئے بچے کے قتل کی فوٹو ہے۔
- Claimed By : محي الدين نورالدين
- Fact Check : جھوٹ
مکمل حقیقت جانیں... کسی معلومات یا افواہ پر شک ہو تو ہمیں بتائیں
سب کو بتائیں، سچ جاننا آپ کا حق ہے۔ اگر آپ کو ایسے کسی بھی میسج یا افواہ پر شبہ ہے جس کا اثر معاشرے، ملک یا آپ پر ہو سکتا ہے تو ہمیں بتائیں۔ آپ نیچے دئے گئے کسی بھی ذرائع ابلاغ کے ذریعہ معلومات بھیج سکتے ہیں۔