فیکٹ چیک: سری لنکا میں مسجد توڑ کر مسلمانوں کے ہندو مذہب اپنانے کا دعویٰ غلط

نئی دہلی (وشواس ٹیم)۔ سوشل میڈیا پر ایک تصویر وائرل ہو رہی ہے، جس میں کچھ لوگ مسجد کو توڑتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ سری لنکا میں مسلمان اپنے ہاتھوں سے مسجد کو توڑ کر ہندو مذہب اپنا رہے ہیں۔ وشواس نیوز کی پڑتال میں یہ دعویٰ غلط ثابت ہوتا ہے۔ سری لنکا میں مسجد توڑے جانے کے اس واقعہ کا ہندو مذہب کو اپنانے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

کیا ہے وائرل پوسٹ میں؟

فیس بک پر شیئر کئے گئے پوسٹ کے ساتھ دو تصاویر شیئر کی گئی ہیں، جس میں کچھ لوگ ایک مسجد کی طرح دکھ رہے ڈھانچے کو توڑتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔

تصاویر کو شیئر کرتے ہوئے لکھا گیا ہے، ’’سری لنکا میں مسلمان اپنے ہی ہاتھوں سے توڑ رہے ہیں مسجد اور اپنا رہے ہیں ہندو مذہب۔ مسلم بولتے ہیں کہ ہمیں اب مذہب اسلام کی گھنونی اور نفرت انگیز اصلیت سمجھ آگئی ہے‘‘۔

پڑتال کئے جانے تک اس تصویر کو تقریبا 100 سے زیادہ لوگ شیئر کر چکے ہیں۔

پڑتال

رورس امیج کی مدد سے ہم نے پڑتال کی شروعات کی۔ ہمیں پتہ چلا کہ یہ تصویر ملتے جلتے اور اسی دعویٰ کے ساتھ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹویٹر پر بھی وائرل ہو رہی ہے۔ سرچ میں ہمیں پتہ چلا کہ یہ تصویر سری لنکا کے مداتگاما کے کیکی وارا علاقہ کی ہے، جہاں مقامی مسلمانوں نے نیشنل توحید جماعت (این ٹی جے) سے منسلک مسجد کو منہدم کر دیا۔

سرچ میں ہمیں سری لنکا کے مقامی نیوز پورٹل ’ادادیر رانا ڈاٹ آئی کے‘ (نیچے انگریزی میں دیکھیں) کا نیوز لنک ملا، جسے 30 مئی 2019 کو شائع کیا گیا ہے۔
adaderana.lk

خبر نے اپنے مقامی صحافی کے حوالے سے بتایا کہ سری لنکا کے مداتگاما کے کیکی وارا علاقہ میں مسلم برادری نے نیشنل توحید کی مسجد کو منہدم کر دیا۔ خبر میں علاقہ کے مین مسجد کے سربراہ ایم ایچ ایم اکبر خان کے حوالے سے بتایا گیا ہے، ’’جس مسجد کو لے کر سوال ہے، وہ غیر ملکی ادارہ کی فنڈنگ کی مدد سے بنی تھی۔ اس مسجد کو جس زمین پر بنایا گیا تھا، وہ گاوں کے مقامی لوگوں کی مدد سے بنائی گئی تھی اور یہ زمین بچوں کی لائبریری کے لئے مختص کی گئی تھی‘‘۔

حالاںکہ، ملک میں موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے گاؤں کی مین مسجد کی انتظامی کمیٹی نے طے کیا ہے کہ یہاں دوسری مسجد کی ضرورت نہیں ہے۔

اس کی تصدیق کے لئے جب ہم نیوز سرچ کا سہارا لیا تو ہمیں اس واقعہ کی دیگر تصاویر بھی ملی۔ 29 مئی 2019 کو ڈیلی مرر (نیچے انگریزی میں لنک دیکھیں) کے سری لنکا پورٹل میں ہمیں یہ خبر ملی۔ خبر میں ہمیں کنچن کمار اریاداسا کی کھینچی گئی تصاویر ملیں، جو مسجد کو گرانے سے جڑی ہوئی تھیں۔ 29 مئی 2019 کو ڈیلی مرر سری لنکا کے ویری فائڈ یو ٹیوب چینل پر ہمیں اس واقعہ کا ویڈیو بھی ملا۔
http://www.dailymirror.lk

یعنیٰ وائرل پوسٹ میں جن تصاویر کا استعمال کرتے ہوئے سری لنکا میں مسلمانوں کے مسجد منہدم کئے جانے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے، وہ صحیح ہے۔ حالاںکہ تصویر کے ساتھ جو دعویٰ کیا گیا ہے، وہ غلط ہے۔

رواں سال 7 جون کو بی بی سی نیوز نے اپنی رپورٹ میں اکبر خان کے حوالے سے بتایا ہے، ’’حملے (ایسٹر بلاسٹ) کے بعد پولیس نے متعدد مرتبہ مسجد کا دورہ کیا۔ اس سے لوگوں کی پریشانی بڑھ رہی تھی اور دیگر برادران کے ساتھ  بے اعتمادی میں بھی اضافہ ہو رہا تھا‘‘۔

خبر کے مطابق، جس مسجد کو گرایا گیا، وہ نیشنل توحید جماعت کے ممبرس کے استعمال میں آتی تھی۔ ایسٹر پر ہوئے دھماکہ کے بعد اس تنظیم پر سری لنکا حکومت پابندی لگا چکی ہے۔ حملہ کے بعد اس تنظیم کے ذریعہ استعمال میں لائی جانے والی واحد مسجد کو سرکار سیل کر چکی ہے۔

خان نے کہا، ’’ہمارے شہر میں مسلمانوں کے لئے ایک مسجد پہلے سے ہی تھی۔ حالاںکہ، کچھ سال پہلے ایک دیگر گروپ نے اس مسجد کی تعمیر کی تھی‘‘۔ انہوں نے کہا کہ پرانی مسجد کے لوگوں نے مئی میں ہوئی میٹنگ میں اتفاق رائے سے طے کیا کہ نئی مسجد کو منہدم کر دیا جائےگا‘‘۔

بی بی سی ورلڈ سروس کے لئے اس رپورٹ کو لکھنے والے صحافی سوامی ناتھ نٹراجن نے وشواس نیوز کو بتایا، ’’مسجد توڑے جانے کے معاملہ کا تبدیل مذہب سے کوئی لینا دینا نہیں ہے‘‘۔

سوشل اسکین میں ہمیں پتہ چلا کہ سورج نگم کے پروفائل سے متعدد گمراہ کن پوسٹ شیئر کئے گئے ہیں۔ انہوں نے خود کو آر ایس ایس سے جڑا ہوا بتایا ہے، جو گو رکشا ہندو دل کے لئے کام کرتا ہے۔ وشواس نیوز ازاد طریقہ سے ان کے آر ایس ایس میں ہونے کی تصدیق نہیں کرتا ہے۔

نتیجہ: ایسٹر پر حملہ کے بعد دیگر برادران کے ساتھ بڑھتی بے اعتمادی کو کم کرنے کے لئے سری لنکا کے مداتگاما میں مقامی مسلمانوں نے ایک مسجد کو گرا دیا، کیوں کہ غیر ملکی تنظیموں سے فنڈنگ کی وجہ سے مسجد پر سوال کھڑے ہو رہے تھے۔ اس مسجد کا استعمال ممنوعہ انتہا پسند تنظیم توحید جماعت کے لوگ کر رہے تھے، جس کی وجہ سے مقامی سطح پر لوگوں کے درمیان بے اعتمادی قائم ہو رہی تھی۔ مسجد توڑے جانے کے واقعہ کا مسلمانوں کے ہندو مذہب قبول کئے جانے سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

مکمل سچ جانیں…سب کو بتائیں

اگر آپ کو ایسی کسی بھی خبر پر شک ہے جس کا اثر آپ کے معاشرے اور ملک پر پڑ سکتا ہے تو ہمیں بتائیں۔ ہمیں یہاں جانکاری بھیج سکتے ہیں۔ آپ ہم سے ای میل کے ذریعہ رابطہ کر سکتے ہیں
contact@vishvasnews.com 
اس کے ساتھ ہی واٹس ایپ (نمبر9205270923 ) کے ذریعہ بھی اطلاع دے سکتے ہیں۔


False
Symbols that define nature of fake news
Related Posts
Recent Posts