وشواس نیوز کی جانچ میں پتہ چلا کہ فرقہ وارانہ فرضی دعوی کے ساتھ وائرل ہو رہی تصویر فرضی ہے۔ ایک سال قبل پیش آئے معاملہ کی تصویر کو اراداتاً فرقہ وارانہ زاویہ کے ساتھ وائرل کیا جا رہا ہے۔
نئی دہلی (وشواس نیوز)۔ سوشل میڈیا پر ایک سال پرانے معاملہ کی تصویر کو فرقہ وارانہ اور فرضی دعوی کے ساتھ وائرل کیا جا رہا ہے۔ تصویر کا استعمال کرتے ہوئے صارفین دعوی کر رہے ہیں کہ راجستھان میں 8 سال کی بچی کے ساتھ نصیر خان نام کے ایک نوجوان نے عصمت دری کے بعد اس کا قتل کر لاش کو درخت سے لٹکا دیا۔
وشواس نیوز کی جانچ میں پتہ چلا کہ وائرل پوسٹ فرضی ہے۔ ایک سال پہلے راجستھان کے سپوٹرا کے گاؤں میں پوجا مینا نام کی خاتون کے قتل اسی کے ذات کے ایک نوجوان نے کیا تھا۔
فیس بک صارف ’کملیش کروڈیوال‘ نے ایک تصویر کو اپ لوڈ کرتے ہوئے دعوی کیا: ’’8 سالہ بچی، سپوٹرا، راجستھان میں نصیر خان نے عصمت دری کے بعد قتل کر لاش کو پیڑ پر لٹکا دیا گیا۔ کیا ایسے جانور کو پھانسی ہونی چاہئے….ہاں..نا؟؟‘‘۔
اس پوسٹ کو 26 جو کو اپ لوڈ کیا گیا ہے۔ اسے حقیقت میں مان کر متعدد سوشل میڈیا صارفین شیئر کر رہے ہیں۔
وشواس نیوز نے سب سے پہلے وائرل ہو رہی تصویر کو گوگل رورس امیج میں اپ لوڈ کر کے سرچ کیا۔ ہمیں ڈیلی ہنٹ پر اس سے جڑی ایک خبر ملی۔ 22 جون 2019 کو شائع ہوئی اس خبر میں بتایا گیا کہ کرولی کے سپوٹا کے ترسنگ پورا میں ایک لڑکی کا قتل کر کے لاش کو درخت سے باندھ کر لٹکا دیا گیا۔
مکمل خبر آپ یہاں پڑھ سکتے ہیں۔
پڑتال کے دوران ہمیں فیس بک پیج میگھوال سماج یووا پر ایک پوسٹ ملی۔ 22 جون 2019 کو اپ لوڈ اس پوسٹ میں وائرل تصویر کے علاوہ کئی تصاویر کا استعمال تھا۔
پوسٹ یہاں دیکھیں۔
تفتیش کے دوران ہمیں راجستھان کی ایک ویب سائٹ پر اس سے منسلک خبر ملی۔ 26 جون 2019 کو شائع اس خبر میں بتایا گیا کہ سپوٹرا کے گاؤں میں ہوئی لڑکی کے قتل میں کرولی کے سلپورا گاؤں میں رہنے والے مہیندر مینا کو گرفتار کیا گیا۔ جس لڑکی کا قتل ہوا تھا، اس کا نام پنکی عرف پوجا بنت سری موہن مینا تھا۔
مکمل خبر آپ یہاں پڑھ سکتے ہیں۔
وشواس نیوز نے اس کے بعد قتل شدہ والد سری موہن مینا سے رابطہ کیا۔ انہوں نے وائرل پوسٹ کی جانکاری دی۔ انہوں نے بتایا کہ ’’میری بیٹی کا قاتل کوی نصیر خان نہیں تھا۔ وہ ہماری ہی برادری کا ہے۔ آج کل وہ ضمانت پر باہر کھلا گھوم رہا ہے‘‘۔
اس کے بعد وشواس نیوز نے جےپور کے ہمارے ساتھی نئی دنیا کے سینئر ایڈیٹر منیش گودھا سے بات کی۔ انہوں نے بتایا کہ وائرل پوسٹ میں جو دعوی کیا جا رہا ہے کہ وہ فرضی ہے۔ تصویر ایک سال پہلے کرولی کے گاؤں میں پیش آئے ایک معاملہ کی ہے۔
اب باری تھی اس پوسٹ کو فرضی دعوی کے ساتھ شیئر کرنے والے فیس بک صارف کملیش کروڈیوال کی سوشل اسکیننگ کرنے کی۔ ہم نے پایا کہ اس صارف کا تعلق راجسھتان کے سکر سے ہے علاوہ ازیں اس پروفائل کے ذریعہ ایک مخصوص آئیڈیولاجی کی جانب متوجہ پوسٹ کو شیئر کیا جاتا ہے۔
نتیجہ: وشواس نیوز کی جانچ میں پتہ چلا کہ فرقہ وارانہ فرضی دعوی کے ساتھ وائرل ہو رہی تصویر فرضی ہے۔ ایک سال قبل پیش آئے معاملہ کی تصویر کو اراداتاً فرقہ وارانہ زاویہ کے ساتھ وائرل کیا جا رہا ہے۔
اگر آپ کو ایسی کسی بھی خبر پر شک ہے جس کا اثر آپ کے معاشرے اور ملک پر پڑ سکتا ہے تو ہمیں بتائیں۔ ہمیں یہاں جانکاری بھیج سکتے ہیں۔ آپ ہم سے ای میل کے ذریعہ رابطہ کر سکتے ہیں contact@vishvasnews.com
اس کے ساتھ ہی واٹس ایپ (نمبر9205270923 ) کے ذریعہ بھی اطلاع دے سکتے ہیں