فیکٹ چیک: پاکستان کے پنجاب صوبہ کی پولیس کے تشدد کا ویڈیو کشمیر کے نام سے ہوا وائرل

نئی دہلی (وشواس نیوز)۔ سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہو رہا ہے جس میں پولیس اہلکار کچھ خواتین پر تشدد کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ ویڈیو کے ساتھ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ یہ معاملہ کشمیر میں پیش آیا ہے۔ اور یہ تمام خواتین کشمیری ہیں اور انہیں پر ہندوستانی فوج کی جانب سے ظلم کیا جا رہا ہے۔ وشواس ٹیم کی پڑتال میں یہ دعویٰ فرضی ثابت ہوتا ہے۔ یہ ویڈیو ہندوسان کے کشمیر کا نہیں، بلکہ پاکستان کے پنجاب صوبہ کا ہے۔

کیا ہو رہا ہے وائرل؟

فیس بک پر ’ ہم ہندوستانی ہیں‘ نام کے پیج سے 22 ستمبر کو ایک ویڈیو کو شیئر کیا جاتا ہے۔ اس ویڈیو میں پولیس اہلکار کچھ خواتین پر تشدد کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ ویڈیو کے ساتھ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ کشمیری خواتین پر ظلم ہو رہا ہے اور یہ ظلم ہندوسانی فوج کی جانب سے کیا جا رہا ہے۔ علاوہ ازیں ویڈیو کے ساتھ کیپشن میں لکھا ہے۔
“#Kashmir_Muslim_Woman_Tourture_By_Indian_Army ||
Kashmir_Muslim_Are_Helpless_in_Current_World ||
Free_Kashmir
Save_Muslim”

پڑتال

ہم نے پڑتال کا آغاز کیا اور سب سے پہلے ویڈیو کو غور سے دیکھا۔ ویڈیو میں نظر آرہے پولیس اہلکاروں کی وردی بھی ہندوستانی پولیس سے تھوڑی مختلف نظر آئی۔ وہیں ویڈیو کے 10ویں سیکنڈ پر ہمیں ایک پولیس اہلکار کی وردی پر پاکستان کا پرچم نظر آتا ہے۔

اب ہم نے اس ویڈیو کے اسکرین شاٹ کو ینڈیکس میں سرچ کیا۔ سرچ کے نتائج میں ہمیں یہ ویڈیو مدیہا مسعود کے ٹویٹر ہینڈل پر ملا۔ انہوں نے اس ویڈیو کو پاکستان پنجاب کے حوالے سے شیئر کیا ہے۔

علاوہ ازیں ہمیں یہ ویڈیو فراز وہاب کے ٹویٹر ہینڈل سے بھی ملا۔ انہوں نے اس ٹویٹ کو 27 جون 2019 کے روز کیا ہے۔

ہم نے اپنی پڑتال کو آگے بڑھایا اور متعدد کی ورڈس ڈال کر ویڈیو کو سرچ کرنے کی کوشش۔ ہمیں یو ٹیوب پر ’ہیڈ لائن نیوز’ کے اکاونٹ پر یہی ویڈیو اپ لوڈ ملا۔ یہ ویڈیو 26 جون 2019 کو اپ لوڈ کیا گیا تھا۔ اس ویڈیو کے ساتھ کیپشن لکھا ہے
punjab police beaten women in #multan – police beaten women in court

اپنی خبر کو پختہ کرنے کے لئے ہم نے دینک جاگرن کے جموں و کشمیر ایڈیٹر راہل شرما سے رابطہ کیا اور ان کے ساتھ ویڈیو شیئر کیا۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ روز میری بات اے ڈی جی پی منیر خان سے ہوئی تھی اور انہوں نے بتایا کہ، ’’بہت سے فرضی ویڈیو اور تصاویر کو کشمیر کے نام سے وائرل کیا جا رہا ہے اور اس موضوع پر ہم جلد از جلد مناسب کاروائی کریں‘‘۔

اب باری تھی اس پوسٹ کو فرضی حوالے کے ساتھ وائرل کرنے والے فیس بک پیج ’ہم ہندوستانی ہیں‘ کی سوشل اسکیننگ کرنے کی۔ ہم نے پایا کہ اس پیج کو 5,079 لوگ فالوو کرتے ہیں۔علاوہ ازیں اس پیج سے متعدد فرضی خبریں بھی شیئر کی جاتی ہیں۔

نتیجہ: وشواس ٹیم نے اپنی پڑتال میں اس وائرل ہو رہے دعویٰ کو فرضی پایا۔ یہ وائرل ویڈیو ہندوستان کے کشمیر کا نہیں، بلکہ پاکستان کے صوبہ پنجاب کا جون 2019 کا ہے۔

False
Symbols that define nature of fake news
مکمل سچ جانیں...

اگر آپ کو ایسی کسی بھی خبر پر شک ہے جس کا اثر آپ کے معاشرے اور ملک پر پڑ سکتا ہے تو ہمیں بتائیں۔ ہمیں یہاں جانکاری بھیج سکتے ہیں۔ آپ ہم سے ای میل کے ذریعہ رابطہ کر سکتے ہیں contact@vishvasnews.com
اس کے ساتھ ہی واٹس ایپ (نمبر9205270923 ) کے ذریعہ بھی اطلاع دے سکتے ہیں

Related Posts
Recent Posts