فیکٹ چیک: ویڈیو میں لڑکی کو پیٹنے والے اس کے رشتہ دار تھے، کسی پارٹی کا اس معاملہ سے کوئی تعلق نہیں

نئی دہلی (وشواس ٹیم)۔ سوشل میڈیا کے متعدد پلیٹ فارمس پر 45 سیکنڈ کا ایک ویڈیو وائرل ہو رہا ہے۔ اس کے حوالے سے دعوی کیا جا رہا ہے کہ یہ ’بھگوا دہشت گرد‘ ہے۔ کچھ لوگ اس ویڈیو کو بی جے پی سے منسلک کر رہے ہیں۔ وشواس ٹیم کی پڑتال میں یہ دعوی فرضی ثابت ہوا۔ ویڈیو میں لڑکی کو مار رہے لوگوں کا ’بھگوا دہشت گردی‘ یا بی جے پی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ سبھی لڑکی کے رشتہ دار تھے۔ وائرل ویڈیو مدھیہ پردیش کے دھار ضلع کے ایک گاؤں کا ہے۔ یہ لڑکی اپنی مرضی سے ایک نوجوان سے شادی کرنا چاہتی تھی، لیکن گھروالوں کو یہ بات منظور نہیں ہوئی اور اس کی پٹائی کر دی۔

کیا ہے وائرل پوسٹ میں

شیو نریش نام کے ایک فیس بک صارف نے لڑکی کی پٹائی کا ایک ویڈیو اپ لوڈ کرتے ہوئے دعویٰ کیا ’’بھگوا دہشت گرد… بی جے پی کی شان..بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاو کس طرح 8۔10 لڑکے مل کر ایک لڑکی کو مار رہے ہیں۔ 50 کا بھگوا گمچھا جس میں رام لکھا ہو گلے میں ڈال کر آپ کو کچھ بھی کرنے کی آزادی ہے۔ یہی ہے نریندر مودی کا نیو ڈجیٹل انڈیا‘‘۔

اس ویڈیو کو اب تک 1500 لوگ شیئر کر چکے ہیں، جبکہ اس پر کل ویوز 37 ہزار سے زائد ہیں۔ محض اتنا ہی نہیں، متعدد لوگ مسلسل کمینٹ بھی کر رہے ہیں۔

اس ویڈیو کو متعدد صارفین مختلف دعوےٰ کے ساتھ وائرل کر رہے ہیں۔ فیس بک سے لے کر واٹس ایپ پر یہ وائرل ہو چکا ہے۔

پڑتال

وشواس ٹیم نے سب سے پہلے وائرل ہو رہے ویڈیو کو غور سے دیکھا اور سنا۔ اس کے بعد اس ویڈیو کو ان ویڈ میں ڈال کر کئی کی فریم نکالے۔

اس کے بعد انہیں ہم نے گوگل رورس امیج میں سرچ کیا۔ گوگل کے کئی پیجز کو اسکین کرنے کے بعد ہمیں دا ہندو کی ویب سائٹ پر ایک خبر ملی۔ خبر اسی ویڈیو میں نظر آرہی خاتون کو لے کر تھی۔ 30 جون 2019 کو اپ لوڈ اس خبر میں بتایا گیا کہ مدھہ پردیش کے دھار کے ایک گاؤں میں ایک قبائیلی لڑکی کی اس کے گھر والوں نے پٹائی کر دی۔ معاملہ دوسری ذات کے نوجوان سے محبت کا تھا۔

اس کے بعد وشواس ٹیم نے دینگ جاگرن کے ساتھی اخبار ’نئی دنیا‘ کے دھار ایڈیشن کو کھنگالنا شروع کیا۔ یکم جولائی کو شائع ایک خبر ہمیں ملی۔ اس خبر میں تفصیل سے حادثہ اور ویڈیو کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ خبر کے مطابق، مدھیہ پردیش کے دھار ضلع کے گھٹ بوری گاؤں کی ایک قبائیلی لڑکی دوسری ذات کے نوجوان کے ساتھ کہیں چلی گئی تھی۔ جس کے بعد پورا معاملہ پولیس میں گیا اور اس لڑکی کو خاندان کے حوالے کر دیا گیا۔ اس کے بعد رشتہ داروں نے لڑکی کی پٹائی کی۔

کب کا ہے معاملہ

نئی دنیا اخبار کے مطابق، 25 جون کی شام 4 بجے لڑکی کی پٹائی ہوئی تھی۔ یہ ویڈیو اس وقت بنایا گیا تھا، لیکن وائرل ہونا شروع ہوا 28 جون کی رات سے۔ جس کے بعد یہ  ویڈیو پورے ملک میں الگ- الگ حوالے کے ساتھ وائرل ہو رہا ہے۔

پٹائی میں کون- کون شامل تھے

وشواس ٹیم کی پڑتال میں پتہ چلا کہ لڑکی کو پیٹنے والے لوگ اس کے رشتہ دار ہی تھے۔ اس میں لڑکی کا کاکا، بھائی مہیش اور رشتہ دار سردار، ڈونگر، کلا، دلیپ اور گنپتی شامل تھے۔ کچھ لوگوں نے لڑکی کو ڈنڈے سے پیٹا تو کسی نے لاتوں سے۔ لڑکی کے گرنے پر اس کے رشتہ دار اسے اٹھا کر پھر سے پیٹتے ہیں۔

اس کے بعد وشواس ٹیم نئی دنیا کے آئن لائن ایڈیٹر سدھیر گورے سے رابطہ کیا۔ انہوں نے بتایا، ’’اطلاعات کے مطابق، پورے معاملہ کا کسی پارٹی یا مبینہ دہشت گردی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ معاملہ خاندان کا ہے۔ پولیس کے مطابق، لڑکی اپنے خاندان کی مرضی کے خلاف دوسری ذات کے کسی شخص سے شادی کرنا چاہتی تھی، لیکن اس کے رشتہ داروں نے ایسا ہونے نہیں دیا اور اس کی پٹائی کی‘‘۔

آخر میں ہم نے ویڈیو کو وائرل کرنے والے شیو نریش نام کے فیس بک صارف کی پروفائل کی سوشل اسکیننگ کی۔ اس سے ہمیں پتہ چلا کہ صارف اتر پردیش کے بھدوہی کا رہنے والا ہے۔

نتیجہ: وشواس ٹیم کی پڑتال میں پتہ چلا کہ وائرل ہو رہے ویڈیو میں کوئی سیاسی پارٹی شامل نہیں ہے۔ ویڈیو میں دکھ رہی لڑکی کی پٹائی اس کے رشتہ داروں نے کی، کیوں کہ لڑکی اپنی مرضی سے دوسری ذات کے لڑکے سے شادی کرنا چاہتی تھی۔


مکمل سچ جانیں…سب کو بتائیں

اگر آپ کو ایسی کسی بھی خبر پر شک ہے جس کا اثر آپ کے معاشرے اور ملک پر پڑ سکتا ہے تو ہمیں بتائیں۔ ہمیں یہاں جانکاری بھیج سکتے ہیں۔ آپ ہم سے ای میل کے ذریعہ رابطہ کر سکتے ہیں
contact@vishvasnews.com 
اس کے ساتھ ہی واٹس ایپ (نمبر9205270923 ) کے ذریعہ بھی اطلاع دے سکتے ہیں۔

False
Symbols that define nature of fake news
Related Posts
Recent Posts