نئی دہلی (وشواس ٹیم)۔ فیس بک پر یو پی کی ایک پرانی تصویر وائرل ہو رہی ہے۔ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ تصویر میں نظر آرہی خاتون کی اترپردیش پولیس نے پٹائی کی ہے۔ وشواس ٹیم کی پڑتال میں یہ پوسٹ فرضی ثابت ہوئی۔ تصویر 2016 کی مین پوری کی ہے۔ خاتون کی پٹائی پولیس نے نہیں، بلکہ علاقہ کے کچھ بد معاشوں نے کی تھی۔ اس وقت یو پی میں سماجوادی پارٹی کی حکومت تھی۔ اکھیلیش یادو ریاست کے وزیر اعلی تھے۔
جگت ایکسپریس نام کے فیس بک پیج نے 25 جولائی کو دپہر بارہ بجے دو تصاویر کو اپ لوڈ کرتے ہوئے دعویٰ کیا: ’مودی یوگی جی بیٹی بچاؤ یہی ہے جو بیٹیوں پر ظلم کر رہے پولیس والے ان کو آپ کیا کہیں گے۔ جو بیٹیوں کو اتنی بے رحمی سے مار رہے ہیں۔ مودی یوگی ہائے ہائے‘‘۔
اس پوسٹ کو اب تک 252 لوگ شیئر کر چکے ہیں۔ کمینٹ کرنے والے زیادہ تر صارفین آدتیہ ناتھ حکومت اور یو پی پولیس کے خلاف کمینٹ کر رہے ہیں۔
وشواس ٹیم نے سب سے پہلے وائرل ہو رہی پوسٹ میں استعمال کی گئی تصاویر کو گوگل رورس امیج میں اپ لوڈ کر کے سرچ کیا۔ ہمیں انڈیپیڈنٹ (نیچے انگریزی میں دیکھیں) نام کی ویب سائٹ پر اصل تصویر ملی۔ 23 دسمبر 2016 کو اپ لوڈ ایک خبر میں اس تصویر کا استعمال کیا گیا۔
independent.co.uk
خبر کے مطابق، یو پی کے مین پوری میں ایک خاتون نے اپنے ساتھ ہو رہی چھیڑ خانی کی مخالفت کی تو بد معاشوں نے اس کی پٹائی کر دی۔ ضلع کے کشنی گاؤں کے بازار میں یہ حادثہ ہوا تھا۔ پوری خبر آپ نیچے پڑھ سکتے ہیں۔
اپنی پڑتال کو آگے بڑھاتے ہوئے ہم نے مین پوری کے حادثہ کا ویڈیو سرچ کرنا شروع کیا۔ یو ٹیوب پر ہمیں یہ ویڈیو مل گیا۔ ’سب سے تیز نیوز‘ نام کے ایک یو ٹیوب چینل پر ہمیں یہ ویڈیو ملا۔ ویڈیو کی سرخی تھی۔ یوپی : چھیڑ خانی کی مخالفت کرنے پر بد معاشوں نے سر عام خاتون کو بے رحمی سے پیٹا۔
کل 2:18 منٹ کے اس ویڈیو کو دیکھنے سے ایک بات تو واضح ہوتی ہے کہ ویڈیو میں نظر آرہی خاتون کی پٹائی پولیس والوں نے نہیں، بلکہ کچھ بد معاشوں نے کی تھی۔ یہ ویڈیو 20 دسمبر 2016 کو اپ لوڈ کیا گیا تھا۔ اسے اب تک 36 ہزار سے زیادہ لوگ دیکھ چکے ہیں۔
اس کے بعد وشواس ٹیم نے مین پوری کے کشنی پولیس اسٹیشن کے سینئر ہاوس آفسر (ایس ایچ او) رام کار یادو سے بات کی۔ انہوں نے بتایا کہ وائرل پوسٹ پرانی ہے۔ ابھی کوئی ایسا حادثہ پیش نہیں آیا ہے۔
آخر میں ہم نے جگت ایکسپریس نام کے فیس بک پیج کی سوشل اسکیننگ کی۔ اس پیج کو 4800 سے زیادہ لوگ فالو کرتے ہیں۔ پیج کی اسکیننگ میں ہمیں پتہ چلا کہ جگت ایکسپریس (نیچے انگریزی میں دیکھیں) نام سے ایک نیوز پورٹل بھی اسی پیج سے جڑا ہوا ہے۔ اس پیج کو گریٹر نوائڈا میں رہنے والے ابھیشیک ورما مینج کرتے ہیں۔
@jagatexpress
نتیجہ: وشواس ٹیم کی پڑتال میں وائرل پوسٹ فرضی ثابت ہوئی۔ وائرل تصویر میں نظر آرہی خاتون کی پولیس نے نہیں، بلکہ بد معاشوں نے پٹائی کی تھی۔ حادثہ مین پوری کے کشنی تھانہ علاقہ کا 2016 کا ہے۔
اگر آپ کو ایسی کسی بھی خبر پر شک ہے جس کا اثر آپ کے معاشرے اور ملک پر پڑ سکتا ہے تو ہمیں بتائیں۔ ہمیں یہاں جانکاری بھیج سکتے ہیں۔ آپ ہم سے ای میل کے ذریعہ رابطہ کر سکتے ہیں
contact@vishvasnews.com
اس کے ساتھ ہی واٹس ایپ (نمبر9205270923 ) کے ذریعہ بھی اطلاع دے سکتے ہیں۔