فیکٹ چیک: یہ تصویر 2012 میں سرینگر کی صوفی درگاہ میں لگی آگ کی ہے، تریپورہ کے نام پر فرقہ وارانہ دعوی سے ہو رہی وائرل
تریپورہ تشدد کے دوران مسجد میں لگائی لگی آگ کے دعوی کے ساتھ وائرل ہو رہی تصویر جموں و کشمیر کے سرینگر میں واقع تاریخی پیر دستگیر صاحب درگاہ میں سال 2012 میں شارٹ سرکٹ کے سبب لگی آگ لگنے کے واقعہ سے متعلق ہے اور اس کو تریپورہ کے فرضی دعوی کے ساتھ وائرل کیا جا رہا ہے۔
- By: Abhishek Parashar
- Published: Dec 4, 2021 at 05:01 PM
نئی دہلی (وشواس نیوز)۔ تریپورہ تشدد کے بعد سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی تصویر میں آگ میں لپٹی عمارت کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس تصویر کو فرقہ وارانہ رنگ دے کر وائرل کرتے ہوئے دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ یہ تصویر تریپورہ میں تشدد کے دوران ایک مسجد میں آگ لگنے کے واقعہ سے متعلق ہے۔
وشواس نیوز کی جانچ میں یہ دعویٰ جھوٹا نکلا۔ وائرل ہونے والی تصویر جموں و کشمیر کے سری نگر میں واقع پیر دستگیر صاحب درگاہ میں آتشزدگی کے پرانے واقعے سے متعلق ہے۔ یہ واقعہ 2012 کا ہے اور اسی کی تصویر اس جھوٹے دعوے کے ساتھ وائرل ہو رہی ہے کہ تریپورہ کے نام پر مسجد میں آگ لگ گئی۔
کیا ہے وائرل پوسٹ میں؟
فیس بک صارف نے وائرل تصویر کو شیئر کرتے ہوئے لکھا، ’آئیے سب تریپورہ کے مسلمانوں کے لیے دعا کریں! تریپورہ ہندوستان کی ایک چھوٹی ریاست ہے۔ تریپورہ میں اب تک 16 مساجد کو آگ لگا دی گئی ہے اور کئی گھروں کو نذر آتش کیا جا چکا ہے۔تریپورہ کے مسلمانوں کے لیے دعا کریں۔ بھارتی ریاست تری پورہ میں گزشتہ کچھ عرصے سے مسلمانوں پر حملے ہو رہے ہیں۔ بجرنگ دل کے کچھ دہشت گرد ہندوتوا طبقہ نے مسلمانوں کے بہت سے مکانات، دکانیں اور 12 مساجد کو جلا دیا ہے۔ لیکن اب تک انتظامیہ کی جانب سے ایسی کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ پاؤں چاٹنے والے مودی نے میڈیا اور سیکولر پارٹیوں کو چھوڑ دیا ہے۔ تریپورہ فرقہ وارانہ قتل عام کے بارے میں مسلم سیاسی لیڈروں نے بھی ایک لفظ نہیں کہا، اللہ ضرور چھوڑتا ہے لیکن نہیں چھوڑتا!‘۔
پڑتال
وائرل ہو رہی تصویر کو گوگل رورس امیج سرچ کئے جاے پر ہمیں یہ تصویر ٹائمس آف انڈیا کی ویب سائٹ پر 26 جون 2012 کو شائع رپورٹ میں لگی ہوئی ملی۔
دی گئی معلومات کے مطابق، یہ تصویر سرینگر کے تاریخی صوفی مذہبی مقام میں لگی آگ کی ہے۔ نیوز سرچ میں ہمیںاین ڈی ٹی وی کی ویب سائٹ پر 25جون 2012 کو شائع ہوا آرٹیکل ملا، جس میں اس واقعہ کا ذکر کیا گیا تھا۔ خبر کے مطاب، ’جموں و کشمیر کی ریاست سرینگر میں واقع تاریخی پیر دستگیر درگاہ پیر کی صبح آگ کی لپیٹ میں آگئی۔ افسران کے مطابق یہ درگاہ میں رکھے دستگیر کے آثار مکمل طور پر محفوظ ہیں۔
کئی دیگر رپورٹ میں بھی اس واقعہ کا ذکر ہے۔ ’اے بی پی نیوز‘ کے ویری فائڈ یوٹیوب چینل پر 2012 میں اپ لوڈ کئے گئے ویڈیو بولیٹن میں اس واقعہ کی معلومات دی گئی ہے اور اس میں نظر آرہا مظر وائرل ہو رہے منظر سے ملتا ہوا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ‘درگاہ میں شارٹ سرکٹ کے باعث آگ لگی اور اس کی وجہ سے کافی نقصان ہوا’۔درگاہ میں سال 2012 میں شارٹ سرکٹ کی وجہ سے آگ لگنے کی تصویر سامنے آئی ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ تریپورہ میں فرقہ وارانہ تشدد کے بعد تریپورہ پولیس کے آفیشل ٹویٹر ہینڈل سے جاری ایک ویڈیو اپیل میں لوگوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ فیس بک اور ٹویٹر پر کسی بھی قسم کی افواہیں نہ پھیلائیں۔ تاہم اس کے باوجود سوشل میڈیا پر گمراہ کن یا جھوٹے دعوؤں کے ساتھ ویڈیوز اور تصاویر شیئر کیے جانے کا رجحان کم نہیں ہوا۔
نتیجہ: تریپورہ تشدد کے دوران مسجد میں لگائی لگی آگ کے دعوی کے ساتھ وائرل ہو رہی تصویر جموں و کشمیر کے سرینگر میں واقع تاریخی پیر دستگیر صاحب درگاہ میں سال 2012 میں شارٹ سرکٹ کے سبب لگی آگ لگنے کے واقعہ سے متعلق ہے اور اس کو تریپورہ کے فرضی دعوی کے ساتھ وائرل کیا جا رہا ہے۔
مکمل حقیقت جانیں... کسی معلومات یا افواہ پر شک ہو تو ہمیں بتائیں
سب کو بتائیں، سچ جاننا آپ کا حق ہے۔ اگر آپ کو ایسے کسی بھی میسج یا افواہ پر شبہ ہے جس کا اثر معاشرے، ملک یا آپ پر ہو سکتا ہے تو ہمیں بتائیں۔ آپ نیچے دئے گئے کسی بھی ذرائع ابلاغ کے ذریعہ معلومات بھیج سکتے ہیں۔